پہلے تولو پھر بولو

قومی اسمبلی میں حکومتی رکن اور خاتون رکن قومی اسمبلی کے درمیان تندو تیز تقاریر اور مبینہ طور پر قابل اعتراض الفاظ کے استعمال کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کی ثالثی اور رکن قومی اسمبلی کی خاتون سے معافی کا خواستگار ہونا اور اسے قبول کرنے کے بعد معاملے کا خوش اسلوبی سے ختم ہونا ایک بری کہانی کا اچھا اختتام ضرور ہے لیکن ملکی ایوانوں میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ جس سیاسی جماعت کا جس ایوان میں بس چلتا ہے مخالفین سے اسی طرح کا سلوک روا رکھا جانا معمول کی بات ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ ملکی ایوان مچھلی بازار بن چکے ہیں جہاں بازاری زبان کے استعمال طعن و تشنیع اور برے القابات رکھنے سے لے کر ہر وہ رویہ ا ختیار کیا جاتا ہے جو دل چاہے عوام نے ان اراکین اسمبلی کو نہ تو ساری سیاست اور ایوان کا وقت اپنے لیڈر کی مدح سرائی میں گزارنے کا مینڈیٹ دیا ہے اور نہ ہی یہ دل کی بھڑاس نکالنے کا فورم ہیں ناانصافی اور معاملات پر بات ضرور ہونی چاہئے مگر اسے ایوان کی کارروائی اور ایجنڈے پر مقدم رکھ کر اسے غالب رکھنے کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی اس کے لئے یہ مناسب فورم ہے ایوان میں عوامی مسائل کا تذکرہ ہونا چاہئے اس پر توجہ دلائی جائے اور خاص طور پر قانون سازی کی ذمہ داری پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس کی شدید کمی کا ہر دور میں احساس ہوتاآیا ہے اس وقت نیب آرڈیننس پر عدالت عظمیٰ کا جو وقت صرف ہو رہا ہے اس کی وجہ ہی اسے باقاعدہ طور پر ایوان سے منظور کرکے قانون کی شکل دینے کی بجائے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنانا تھا جب تک ایوانوں میں قانون سازی کی بنیادی ذمہ داری پر توجہ نہیں دی جائے گی اس وقت تک ایوان کی بالادستی کی حقیقی و کالت بھی ممکن نہیں بہتر ہوگا کہ سیاستدان خواہ خواتین ہوں یا مرد اپنے اپنے لہجے اور ا لفاظ کی ادائیگی کے وقت پہلے تولو پھر بولو کے اصول کی پاسداری کا خیال رکھیں اور بلاوجہ کی خطابت کے جوہر دکھانے اور اپنے قائدین بارے رطب اللسان ہونے کی بجائے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرکے آئین اور ایجنڈا پر اظہار خیال تک محدود رہیں تو بہتر ہوگا تاکہ گالیاں کھا کر بے مزہ ہونے اور روٹھنے و منانے کے لامتناہی عمل کے اختیار کی شاید ہی نوبت آئے۔

مزید پڑھیں:  امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان