صوبے کے حقوق کی بازیافت

وفاق اور صوبے کے درمیان حقوق کے نام پر جو چپقلش چل رہی ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس نے بالآخر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے لہجے میں تلخی پیدا کرکے وفاق کوصوبے کے حقوق کی فراہمی کے حوالے سے پندرہ دن کی ڈیڈ لائن دینے پر مجبور کردیا ہے، یہ صورتحال اگرچہ کسی بھی حوالے سے مناسب نہیں ہے اور اگر معاملات افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو ملک و قوم کے مفاد میں اچھا ہو گا، صورتحال کے اس نہج تک پہنچنے کی وجوہات کی پس پشت ممکن ہے سامنے نظر آنے والے حالات کے علاوہ بھی کچھ دیگر عوامل کارفرما ہوں جن کو سمجھ بوجھ اور سیاسی انداز میں حل کرنے پر اگر توجہ دی جائے تو بہتر ہوگا ، وزیر اعلیٰ نے دو اہم نکات کو سامنے رکھتے ہوئے وفاق کو جس طرح دھمکی آمیز انداز میں للکارا ہے اصولی طور پران نکات کی سنجیدگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، یعنی سب سے اہم مسئلہ تو بجلی کے متفرق معاملات ہیں ، جن میں بے پناہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب ہے جس کے حوالے سے وفاق کی جانب سے صوبے کے عوام پر عمومی بجلی چوری کے الزامات کا بار بار اعادہ ہے جس کے ساتھ مکمل اتفاق نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ بجلی چوری صرف خیبر پختونخوا ہی میں نہیں کی جارہی ہے بلکہ ملک کے دیگر صوبے بھی اس قسم کے الزامات سے مستثنیٰ قرار نہیں دیئے جا سکتے ،چوری کہاں کم ہوتی ہے اور کہاں زیادہ ، یہ ایک علیحدہ سے سوال ہے ۔ تاہم باقی صوبوں کو ہر قسم کے الزامات سے بری کرکے صرف خیبر پختونخوا کے عوام کو ”بجلی چور” کہنے کاکوئی جواز نہیں ہے ،یہاں تک کہ وفاقی کابینہ کے بعض وزراء اور دیگر اہم افراد کے علاوہ یہ بیانیہ خصوصاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے صحافتی حلقوں ، یوٹیوبرز ، وی لاگرز کے ذریعے بھی جس طرح آگے بڑھایا جا رہا ہے وہ قابل افسوس امر ہے، دوسرا نکتہ پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا ہے جوایک طویل عرصے سے واپڈا نے دبا رکھا ہے ، اس سلسلے میں پہلے تو ایک عرصے تک اے جی این قاضی فارمولے پر عملدرآمدسے انکار کو مختلف حیلوں بہانوںسے رد کیا جاتا رہا ، یا پھر اس معاملے کو ٹال مٹول سے اور قانونی موشگافیوں سے تاخیری حربوں کا شکار کیا جاتا رہا ، اس سلسلے میں سابق ایم ایم اے اور اس کے بعد اے این پی ادوار میں بھر پور انداز میں اجاگر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ جس کی بناء پر وفاقی حکومت بڑی مشکل سے سالانہ ادائیگی جو چھ ارب پر ساقط کی جا چکی تھی میں اضافے پر تیار تو ہوئی مگر ابتداء میں چھ ارب کی رقم کو آٹھ ارب کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی اور بعد میں اس حوالے سے مزید اضافہ کیا گیا لیکن اس کے باوجود سالانہ منافع کی حقیقی ادائیگی میں تاخیری حربوں سے اب یہ بقایا جات 1510ارب روپے تک جا پہنچے ہیں ، حیرت زاء امر یہ ہے کہ واپڈا صوبائی حکومت کو اپنے بقایا جات اور سالانہ آمدنی اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ادا کرنے پر تو کوئی توجہ نہیں دیتی جبکہ صوبے کے (مختلف سرکاری اداروں کے ذمے) واجب الادا رقم صوبائی حکومت سے یکمشت کاٹ لیتی ہے ، اس سلسلے میں صوبے میں گزشتہ تین ادوار سے برسراقتدار تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا ، سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنی ہی جماعت کے (سابق) وزیر اعظم کے پاس جب بھی بقایا جات کامسئلہ لے کر حاضری دیتے تو سابق وزیر اعظم نہ صرف انہیں بلکہ اگلے دور کے وزیر اعلیٰ محمود خان کو بھی لالی پاپ تھما کر بہلا دیتے ، اب تحریک انصاف کا تیسرا دور چل رہا ہے اور موجودہ وزیر اعلیٰ نے اس حوالے سے جارحانہ طرز عمل اختیار کرلیا ہے ،سو دیکھتے ہیں کہ ان کی جانب سے پندرہ دن کے الٹی میٹم کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟، اسی طرح ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں ٹیکس کے نفاذ پر بھی وزیر اعلیٰ نے سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے، حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی مسائل ہیں ان میں عوام کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر گفت و شنید سے ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو بہتر ہے ، صورتحال کی سنگینی کے حوالے سے ایک اہم نکتہ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں عوامی احتجاج پر وہاں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ حددرجہ کمی کا اعلان ہے ، جس کے بعد اب ملک بھر سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے مطالبات سامنے آرہے ہیں ، اس لئے بہتر یہی ہے کہ وفاق کے نمائندے صوبائی وزیر اعلیٰ کے ساتھ باہم گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دیں تاکہ معاملات کی سنگینی مزید محاذ آرائی کی سمت نہ چلی جائے۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟