صحرا میں اذاں دے رہا ہوں

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ”یہ موچی دروازہ ہے نہ ہی ڈی چوک کہ نعرہ بازی ہو ، مہمانوں کی تعداد کو محدود اور متعین کیا جائے ، کوئی چیکنگ نہیں ہے ” ۔ خواجہ صاحب نے یہ بات پارلیمنٹ ہائوس کے بارے میں کہی جہاں بدقسمتی سے نہ تو مہمانوں کی آمد کنٹرول کیا جاتا ہے نہ ہی مہمانوں کی گیلری میں تعداد پر کوئی قدغن لگائی جاتی ہے اور جہاں ا کثر اوقات مہمانوں کی صورت آنے والے غیر پارلیمانی حرکتوں سے پارلیمان کے تقدس کو پامال کرتے پائے جاتے ہیں اگر خواجہ صاحب کی بات کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اسے ملک بھر میں موجود صوبائی اسمبلیوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے ، اور اس کا مظاہرہ ابھی حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے اندر ایک خاتون رکن اسمبلی کی جانب سے گھڑی لہرانے کے بعد مہمانوں کی گیلری سے ان پر نازیبا آوازیں کسنے اور بعض اشیاء پھینکنے کی صورت رد عمل دیکھنے کو ملا تھا ، ویسے معاملہ اگر صرف پارلیمان کے مختلف ایوانوں تک ہی محدود رہتا تو اسے پارلیمانی روایات کی خلاف ورزی سے موسوم کیا جا سکتا تھا ، لیکن یہ معاملہ تو بدقسمتی سے عدلیہ کے ایوانوں تک بھی ماضی میں پہنچا دیا گیا تھا اور یہ باتیں اب ڈھکی چھپی نہیں رہیں کہ بعض جج صاحبان کے اہل خانہ نے کچھ اہم مقدمات کے فیصلوں کے ہنگام عدالتوں کی گیلریوں میں بیٹھ کر تالیاں بجائیں ، خوشی کے نعرے لگائے اور یوں اپنے ممدوح کے حق اور مخالف سیاسی رہنمائوں کے خلاف مبینہ طور پر ( پہلے سے طے شدہ فیصلوں)پر محاورةً عدالت کو سرپر اٹھا لیا تھا اور صورتحال اظہر ادیب کے بقول یوں تھی کہ
ملے تھے پہلے سے لکھے ہوئے عدالت کو
وہ فیصلے جو ہمیں بعد میں سنائے گئے
اس کے بعد اگرچہ مبینہ فیصلوں کے حوالے سے متعلقہ منصفوں کے کردار پر آج تک لعن طعن ہو رہی ہے اور سابقین کی کوشش رہی یعنی بقول فہمی بدایونی
عدالت فرش مقتل دھو رہی ہے
اصولوں کی شہادت ہو گئی کیا؟
کیونکہ ابھی حال ہی میں ایک مقدمے کی شنوائی کے دوران چیف جسٹس نے جو ریمارکس دیئے وہ خاصے معنی خیز ہیں ، انہوں نے کہا کہ ماضی کے فیصلوں کی ذمہ داری ان پر عاید نہیں کی جا سکتی ۔ بات تو درست ہے اسی طرح کچھ ریمارکس یہ بھی تھے کہ باپ کے کئے سزا بیٹے کو نہیں دی جا سکتی ۔ ماضی میں جھانکیں تو پارلیمنٹ میں مہمانوں کی گیلری تو ایک طرف ایک بار غالباًمغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) اسمبلی میں ممبران کے درمیان تصادم کے نتیجے میں اس دور کے سپیکر پر کرسیوں سے حملہ کرکے انہیں سفر آخرت پر روانہ کر دیا گیا بہرحال اگر مہمانوں کی گیلری کے حوالے سے وزیر دفاع کو تشویش ہو رہی ہے تو ”دفاع” کے معاملات کے ساتھ تعلق کی بناء پر انہیں تشویش میں مبتلا ہونے کا پورا پورا حق ہے اور انہوں نے جن دو مقامات کا ذکر کیا ہے تو ان میں سے ایک کے بارے میں تو آج کی نسل جانتی ہے یعنی ڈی چوک جو اسلام آباد ، قصر صدارت ، وزیر اعظم ہائوس اور سیکرٹریٹ کے سنگم پر موجود ہے اور جسے حالیہ برسوں میں طویل دھرنے کی وجہ سے بڑی شہرت ملی حالانکہ ڈی چوک کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں جلسوں کی اجازت دی جاتی مگر بعض ”قوتوں اور حلقوں” کی سازشوں کی وجہ سے اب اس مقام کی حیثیت بھی تبدیل ہو چکی ہے ، البتہ موچی دروازہ جو لاہور میں واقع ہے اور جہاں ماضی میں لاہور کے بڑے اور تاریخی جلسے منعقد ہونے کی اپنی ایک تاریخ ہے اور کہتے ہیں کہ جس سیاسی جماعت کا موچی دروازہ میں منعقدہ جلسہ کامیاب ہوجاتا تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ، بالکل اسی طرح پشاور میں کبھی چوک یادگار ، کوئٹہ میں ایوب پارک ، راولپنڈی میں منٹو پارک جہاں پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان اور پھر پہلی منتخب (سابق ) خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے المناک واقعات رونما ہوئے ۔ کراچی میں نشتر پارک وغیرہ ایسے مقامات ہیں جوسیاسی جلسوں کے حوالے سے اپنی اہمیت رکھتے ہیں یوں دراصل خواجہ آصف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ہائوس کی اپنی تقدیس ہوتی ہے جسے پامال کرنے یک اجازت گیلری میں بیٹھے ہوئے ”مہمانوں” کو نہیں دی جا سکتی تاہم اصولی طور پر دیکھا جائے تو اس قسم کی صورتحال کی ذمہ داری ان اراکین پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے جواپنے مہمانوں کو دعوت دیتے ہوئے انہیں ”حرمت پارلیمنٹ” کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے البتہ خود ان معزز اراکین کے اپنے کردار کو دیکھا جائے تو آئے روز کسی نہ کسی مسئلے پر یہ پارلیمان کے اندر ہنگامہ آرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں بلوں کی کاپیاں پھاڑتے ہیں ، سپیکر ڈیسک کا گھیرائو کرتے ہیں ، ایک دوسرے کیلئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں ، یعنی ان کا لہجہ بالکل میر تقی میر کے اس شعر کی تفسیر لگتا ہے کہ
یوں پکارے ہے مجھے کوچہ جاناں والے
ادھر آ ،او ، ابے او چاک گریباں والے
پارلیمانی جمہوری سیاست کے حوالے سے اہل مغرب ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں آج سے تقریباً تین دہائیاں پہلے یعنی 1994ء میں ریڈیو کی جانب سے ڈرامے کے اعلیٰ تربیت کے لئے جرمنی جانے کا موقع ملا تھا ، مغربی اقوام جن لوگوں کو بھی تربیت یا اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں سکالر شپ دیکر بلواتے ہیں تو تربیت کے دوران صرف متعلقہ درسی یا تربیتی اداروں تک انہیں محدود نہیں رکھتے بلکہ اہم تاریخی مقامات اور مشہور شہروں کی سیاحت کیلئے بھی لے جاتے ہیں ، اس دورے کے دوران جہاں ہمیں مشہور شہروں اور مقامات پر لے جایا گیا وہاں (تب کے جرمن دارالحکومت) بون میں واقع نازی حکمران ہٹلر کے دور کے ان کنسنٹریشن کیمپ کی سیر بھی کرائی گئی جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں یہودیوں کو کیمپوں سے لا کر اگلے جہاں پہنچانے کے بعد ان کی چربی سے صابن بنایا جاتا تھا ، اسی طرح بون میں موجود قومی اسمبلی جسے جرمن زبان میں بنڈسٹاک ”Bundistog”کہا جاتا ہے کی عمارت کی سیر بھی کرائی گئی ( آج کل پارلیمان کی عمارت ایک بار پھرمتحدہ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منتقل ہوچکی ہے ) بون کی عمارت شیشے کی بنی ہوئی تھی اور دوران اجلاس اس کی کارروائی وہاں سے گزرنے والے لوگ بھی شیشے کے پار آسانی کے ساتھ دیکھ سکتے تھے وہاں بھی مہمانوں کی گیلری موجود تھی مگر اسے بھی شیشے کی دیواروں سے محفوظ کر دیاگیا تا مہمان سائونڈ سسٹم کے ذریعے کارروائی آسانی سے دیکھ اور سن سکتے تھے لیکن پارلیمنٹ کی کارروائی میں مخل نہیں ہوسکتے تھے کیا وزیر دفاع خواجہ آصف کو یہ مشورہ نہیں دیا جا سکتا کہ تمام اسمبلیوں میں مہمانوں کی گیلریوں کو اسی طرح کنٹرول کرنے کا اہتمام کیا جائے اور شیشے کی دیواروں سے مہمانوں کی ”مداخلت” پر قدغن لگا دی جائے تاکہ کسی کی جانب سے بھی کوئی نازیبا اور نامناسب رویئے کا عملی اظہار ممکن نہ ہوسکے ؟ بقول سلیم احمد
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں