ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس

پاکستان دنیا کے ان چند عجوبہ ممالک میں شامل ہے جہاں ملک چلانے کو کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے ۔ ملک کے ہر شہر اور قصبے میں قانون سو سو رنگ بدلتا ہے ، صوبوں میں جاکر قانون بدل جاتا ہے یہاں تک کہ صوبہ کے اندر مختلف اضلاع میں بھی قانون یکساں نہیں ہے ۔ پھر ہم اس قانون کو اور آئین کو پاکستان کا قانون اور آئین کیسے کہتے ہیں ۔ پاکستان بھی دنیا کی دیگر ممالک کی طرح کا ایک ملک ہے ۔ جہاں ایک ہی نظام رائج ہونا چاہئیے ، شہروں کے لیے الگ قانون ، بندوبستی اور قبائلی علاقوں کے الگ قانون ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے لیے الگ قانون ۔یہ تفریق کیوں ضروری ہے اور اس تفریق کی وجہ سے ملک کو کیا فائدہ پہنچا ہے ۔ ملاکنڈ ڈویژن اور سابقہ قبائلی اضلاع حکومت سے فنڈز اور نوکریاں ، مراعات اور سہولیات مانگتے ہیں لیکن ٹیکس دینے سے انکاری ہیں ۔ اس طرح بڑے بڑے شہروں میں لوگ بجلی استعمال کرتے ہیں لیکن بل نہیں دیتے ۔ ملک پر قابض امیر طبقہ ٹیکس نہیں دیتا ۔ یعنی جن کے پاس وسائل ہیں وہ اپنے حصہ کا ٹیکس نہیں دیتے اور جو سرکاری ملازمین ہیں وہ تنخواہوں کی ادائیگی سے پہلے بھی ٹیکس دیتے ہیں اور پھر ہر ہر قدم اور ہر شے پر ٹیکس دیتے ہیں ۔ ملاکنڈ ڈویژن میں ملازمین سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ لیکن وہاں پر موجود ٹمبر مافیا ٹیکس نہیں دیتا ، معدنیات کا غیر قانونی دھندہ کرنے والے ٹیکس نہیں دیتے ، کروڑوں اور اربوں روپے کا کاروبار کرنے والے ٹیکس نہیں دیتے ۔ جبکہ عام آدمی جس کی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے غربت کے اس کو یہ مافیاز ورغلا کر احتجاج کے لیے سڑکوں پر لے آتے ہیں ۔اور سیاسی لوگ جو کسی بھی جماعت سے ہوں اس کو اپنی شہرت کا آسان ذریعہ سمجھ کر ٹیکس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں ۔ غریب شخص بازار میں جو کچھ بھی خریدتا ہے اور بجلی کا بل دیتا ہے اس میں وہ ٹیکس کی رقم بھی ادا کرتا ہے ۔ جن علاقوں میں ٹیکس نہیں ہے ان علاقوں میں کالے دھن کی گردش بھی بہت زیادہ ہے ۔ آپ بٹ خیلہ بازار جاکر دیکھ لیں ۔ یا پھر سوات میں جاکر دیکھ لیں وہاں پورے ملک اور بیرون ملک سے لوگ کالادھن لاکر کاروباروں میں لگا رہے ہیں ۔ جس کا فائدہ ان چند لوگوںکو ہی ہوتا ہے اور اس کا ملاکنڈ ڈویژن کے عام لوگوں کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ پاکستان کی حکومت ٹیکس جمع کرنے میں ویسے ہی بہت ناکام ہے مگر ایک پورے علاقہ کو جس میں درجن بھر ضلعے ہیں اور کروڑ سے زیادہ آبادی ہے ٹیکس میں چھوٹ دینا اس ملک کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے ۔ حکومت ان علاقوں کو مراعات ضرور دے ، اچھے ہسپتالوں ِ ، تعلیمی اداروں ، مواصلات کے بہتر سلسلوں ، تربیت کے عملی مراکز اور روزگار کے ذرائع کی شکل میں نہ کہ مٹھی بھر چند سمگلروں ، ذخیرہ اندوزوں ، سیٹھوں اور سہولت کاروں کو ۔ ٹیکس کے اس چھوٹ سے عام آدمی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر حکومت یہ بات عام لوگوں تک پہنچاتی نہیں ہے ۔ حکومتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے میڈیا میں پروپیگنڈا اور تشہیر کے لیے سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے مگر عوامی آگاہی اور حکومت کے فائدے کے کاموں کے لیے ایسا کوئی کام نہیں کرتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام عوام کو یہ مگر مچھ بہت آسانی کے ساتھ اپنا ہم نوا بنا لیتے ہیں ۔یہ ڈراما بھی بہت ہوگیا کہ یہ علاقے ریاستیں تھیں اور خود پاکستان کے ساتھ شامل ہوئی ہیں ۔ اگر یہ علاقے خود سے شامل نہ ہوتے تو ان کے پاس چوائس کیا تھی ۔ اگر ان کی مرضی ہوتی تو یہ کبھی بھی کسی ملک کے ساتھ الحاق نہ کرتے اور اپنی اپنی نوابی اور حکومتی انتظام برقرار رکھتے ۔ اب جب ستر برس سے زیادہ ہوگئے ہیں تو ان علاقوں کو بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح ٹیکس دے کر اس کے بدلے عوامی فائدے کے منصوبے اور سہولیات لینا کا سفر شروع کردینا چاہئیے ۔ ورنہ یہ ملک نہیں چل سکتا اس لیے کہ اس ٹیکس کی چھوٹ کی وجہ سے پاکستان کے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ پاکستان میں سمگلنگ اور ہنڈی اور حوالے کا کا سلسلہ مسلسل اس وجہ سے ان علاقوں میں بڑھ رہا ہے ۔ دولت پر حکومتی نظر نہ ہونے کی وجہ سے کالادھن مسلسل ان علاقوں میں آرہا ہے جس کی ترتیب و ترویج اور استعمال کے لیے ان علاقوں میں لاقانونیت بڑھ رہی ہے ۔چیک اور بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کی معدنیات اور جنگلات کا صفایا ہورہا ہے ۔ ان علاقوں میں ٹیکسوں کا نفاذ بھی ہونا چاہیے اورساتھ ساتھ ان علاقوں سے جو معدنیات اور جنگلات ملک کے دوسرے حصوں میں لے جائے جارہے ہیں اس کی آمدن میں سے ایک مخصوص حصہ واپس ان علاقوں کی ترقی اور بہبود پر بھی خرچ ہونا چاہیے۔ یہاں چونکہ بجلی بہت کم لاگت سے بنتی ہے ۔ اس لیے اس کی قیمت ان علاقوں میںکم رکھی جائے اور پنجاب میں جو بجلی پیدا نہ کرنے کی قیمت کیپیسٹی چارجز کے نام سے حکومتوں میں موجود لوگ ملی بھگت سے کھربوں روپوں کی شکل میں لے رہے ہیں ان کا بوجھ ان غربیوں پر نہ ڈالاجائے ۔ حکومت ان علاقوں سے ٹیکس ضرور لے مگر قلیل آمدنی رکھنے والے لوگوںکو گندم اور بنیادی خوراک کی اشیاء میں سبسڈی بھی دے ۔لوگوں کو قانونی روزگار کرنے کے مواقع فراہم کرے ، ان علاقوں میں صنعتی زون بنائے اور یہاںموجود وسائل کو یہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بنائے تو حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں بھی خطیر رقم ملی گی اور یہاں کے لوگوں کی معاشی زندگی بہتر ہوتی جائے گی ۔ کراچی اور لاہور کی طرز پر اس وقت حکومت ان علاقوں کی آپ لفٹ کے لیے ایک بڑے پیکج کا اعلان کرے جس سے ان علاقوں میں روڈز ، تعلیمی سرگرمیوں اور صحت کی بنیادی سہولیات کو بہتر بنایا جائے تو اس علاقے کے عوام ان چند مٹھی بھر عناصر کے پروپیگنڈا کا ساتھ چھوڑ کر حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں ۔اور ان علاقوں میں بسنے والے باشعور لوگ بھی اپنے اردگرد کے لوگوں کو قائل کرسکتے ہیں کہ ٹیکس دینے سے ان کی زندگی میں بہتری آئی گی اور ٹیکس اس سے لیا جائیگا جس کے پاس قابل ٹیکس آمدنی ہے ۔اور ان علاقوں میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف پانچ فیصد ہوسکتی ہے ۔ باقی پچانوے فیصد لوگوں کو یہ پانچ فیصد ہیومن شیلڈ کے طورپر استعمال کررہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن