سمگلنگ کی روک تھام کے وعدوں کا کیا ہوا

پشاور میں پٹرول پمپ مالکان کی جانب سے ایک روزہ ہڑتال کے باعث شہریوں کومشکلات کا سامنا فطری امر ہے ہمارے نمائندے کے مطابق پشاور کے 90فیصد سے زائد پٹرول پمپس احتجاجاً بند رہے امر واقع یہ ہے کہ پابندی کے باوجودڈبہ پٹرول پمپس پر ایرانی پٹرول کی فروخت کھلے عام جا ری ہے جن کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی اور الٹا انتظامیہ کی جانب سے قانونی پٹرول پمپس مالکان کو بے جا تنگ کیا جاتا ہیحیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سمیت عسکری قیادت کی طرف سے بھی پٹرول کی سمگلنگ کی روک تھام اور اس میں ملوث عہدیداروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی یقین دہانی کرادی گئی تھی لیکن سمندری اور زمینی دونوں راستوں پر سینکڑوں گاڑیوں اور کشتیوں پر پٹرول کی غیر قانونی اور غیر محفوظ طریقے سے منتقلی بھی جاری ہے اور ملک بھر میں اس کی ترسیل کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ جگہ جگہ با آسانی دستیاب ہے جو بڑے پیمانے پر ملی بھگت اور چشم پوشی کے بناء ممکن نہیں صرف پٹرول ہی کی سمگلنگ نہیں ہوتی بلکہ گاڑیوں کی سمگلنگ اور گاڑیوں کے پرزوں کی سمگلنگ بھی جاری ہے علاوہ ازیں کپڑوں سے لے کر کولر اوردیگر ایسی مصنوعات جن کی منتقلی چوری چھپے ممکن ہی نہیں اور نہ ہی چوری چھپے اور خفیہ طریقے سے فروخت ہوسکتی ہے سارا دھندہ چل رہا ہے جو ملکی معیشت مقامی صنعتوں اور ٹیکس وصولی و سیلز ٹیکس کی وصولی سبھی معاملات پر بری طرح اثر انداز ہونے کا باعث ہے اس کے باوجود دعوے کئے جاتے ہیں مگر سنجیدگی کے ساتھ اقدامات نظر نہیں آتے پٹرولیم ڈیلرز اور فروخت کنندگان کمپنیاں اور صارفین سبھی پرحکومت طرح طرح کے ٹیکس اور لیویز عاید کرتی ہے اور فی لیٹر کی قیمت سے زائد اس پر اضافی اخراجات اور ادائیگی کرنی پڑتی ہے اس کے مقابلے میں غیر قانونی اور سمگلنگ کے پٹرول کی ہر مارکیٹ میں فروخت اور دستیابی بھی قانونی کاروبار کے لئے زہر قاتل اور ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دینے کا عمل ہے جس کانوٹس نہ لیا جانا اور انسداد سے چشم پوشی سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کی سرپرستی کے مترادف ہے جن پر فوری نظر ثانی ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  پاک بھارت ہائی وولٹیج ٹاکرا