آخر کب تک؟

اب عوام کو اس امر کا یقین آچکا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس نہ صرف ان کو دینے کیلئے کچھ نہیں بچا ہے بلکہ اب حکومت ایسی پالیسیاں وضع کر رہی ہے کہ اس کی زد سے عام آدمی بھی محفوظ نہیں، حکومت کی ساری توجہ اور سوچ اب صوبوں سے لے کر عام آدمی تک سبھی سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے اور ان پر بوجھ ڈالنے کی ہے ،گو کہ دعوے کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن عملی طور پر اب حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں ۔ سولر سے لے کر ہر اس چیز پر جو سارے عوام کی نہیں تو بعض افراد ہی کو درپیش سہولت تک چھیننے کے اقدامات اور طرح طرح کے اقدامات کے ذریعے حکومت کا عوام پر بوجھ ڈالنے کے عمل کا سلسلہ نجانے کہاں جا کر ختم ہو گا اس کا اندازہ ہی لگانا مشکل ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے عوام پر بوجھ ڈالنے کی فرمائشوں پر تو تعجیل سے عمل پیرا ہے لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے اشرافیہ کے حوالے سے جو احسن اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں ،افسر شاہی کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اس کا الٹ ہوتا ہے ،جہاں پرجلتے ہیں اس کا تو تذکرہ ہی عبث ہے ۔اس ساری صورتحال کا لب لباب عوام پر بوجھ ڈالنے کے آسان عمل میں آئے روز تیزی لانا حکومت کے بس کی بات رہ گئی ہے ،تازہ اقدامات کے تحت حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کے سلسلے میں گھریلو، کھاد، سی این جی اور سیمنٹ سیکٹر کیلئے گیس مہنگی کرنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں، آئی ایم ایف کو فرٹیلائزر پلانٹس کیلئے بھی گیس کے نرخوں میں اضافے کی تجاویز د ی گئی ہیں۔ان اقدامات کا نتیجہ کیا نکلے گا گیس مزید مہنگی ہو گی جس سے گھریلو صارفین سے لے کر تجارتی اور صنعتی صارفین سبھی متاثر ہوں گے، اشیائے صرف کی قیمتوں اور پیداواری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جو مہنگائی کی لہر کو شدید سے شدید تر کرنے کا باعث ہو گا ،کھادوں کے مہنگا ہونے سے زراعت متاثر ہو گی اور پہلے سے مشکلات کا شکار کسان مزید بدحالی کا شکار ہوں گے ۔اس کے باوجودکہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے تجویز دی ہے کہ اگلے مالی سال کیلئے دو پبلک یوٹیلیٹیز کی آمدنی کی ضروریات کے پیش نظرایس این جی پی ایل کی اوسط تجویز کردہ گیس کی قیمتوں میں دس فیصداورایس ایس جی سی چار فیصدکی کمی کی جائے ،ایس این جی پی ایل صارفین کو اگلے مالی سال کے دوران 179.17 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کم ادا کرنا چاہیے، جبکہ ایس ایس جی سی کے صارفین کو 59.23روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا ریلیف ملنا چاہیے۔تاہم ایسا ہو گا نہیں کیونکہ حکومت ان سے581بلین روپے کا ٹیرف ڈیفرنس وصول کرنا چاہتی ہے جو گزشتہ چھ سال کے دوران انہیں نہیں دیا گیا۔ ایس این جی پی ایل کے مالی نقصانات کا اوگرا کی جانب سے تعین کے باوجود حکومت کی جانب سے سیاسی ردعمل کے خوف سے صارفین کو مکمل طور پر منتقل نہیں کیا گیاجو حکام کو اس کیلئے گنجائش فراہم کرتا ہے کہ اگلے سال کمپنی کی گیس کی قیمتوں میں 87فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ حکام پہلے ہی نئے مالی سال سے گیس اور بجلی دونوں کی قیمتوں میں اضافے کے اپنے منصوبوں کا اشتراک کر چکے ہیں۔توانائی کی افراط زر گزشتہ چند سال میں زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔توانائی کی شرحوں میں منصوبہ بند اضافہ مالی سال2025کے دوران قیمتوں کو دوبارہ بڑھا سکتا ہے۔حکومت ملک کے نئے پائے جانے والے معاشی ”استحکام”کو برقرار رکھنے اور اس کی کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر بنانے کیلئے آئی ایم ایف سے ایک اور قرض حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حکام نے اگست سے گیس کی قیمتوں میں اضافے اورجولائی سے بجلی کے بنیادی ٹیرف کے اپنے منصوبے بھی فنڈ کے ساتھ شیئر کئے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت کو اپنی آمدنی کو جی ڈی پی کے 1.5فیصد تک بڑھانے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ان اقدامات سے مہنگائی پھر بڑھے گی اور عوام پر مزید اخراجات کا بوجھ پڑے گا۔ اکثریت کے گھریلو بجٹ، خاص طور پر کم آمدنی والا طبقہ بری طرح متاثر ہو گا جو پہلے سے شدید مشکلات کا شکار ہے ،ان کی قوت خرید میں مزید کٹائو اور حقیقی اجرتوں میں کمی انہیں بریکنگ پوائنٹ سے بہت آگے لے جائے گی۔آئندہ بجٹ اور اس کے ساتھ آنے والے مالیاتی اقدامات اس بات کا تعین کریں گے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ ایڈجسٹمنٹ کا مسلسل بڑھتا ہوا بوجھ کون اٹھائے گا، اشرافیہ، یا بے بس اکثریت اس صورتحال کے باعث معاشرے میں خلیج بڑھ رہی ہے جب تک حکومت اس خلاء کو پر نہیں کرے گی، معاملات قابو سے باہر ہو جائیں گے، اور سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کیلئے آنے والی افراتفری سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔ اقتصادی پالیسیوں اور اونچی قیمتوں کے خلاف مظاہرے بڑھ رہے ہیںجس کامالی امداد کے بغیر کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  ''زما لویہ گناہ دادہ چہ پختون یم''