عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کو جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے وہاں تعلیم کے شعبے میں پانی سر سے اوپر گزرچکا ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ترقی کرنے کے لئے تعلیم کی کیا اہمیت ہے ؟ اور ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی اصل وجہ کیا ہے ؟ ہماری حکومت نے ابھی تک ہوش کے ناخن نہیں لیے ۔ تعلیمی اصلاحات کے زمرے میں ہے شمار تجاویز پیش کی گئی لیکن بد قسمتی سے ان تجاویز پر عمل درآمد اس طرح نہیں کیا جاسکا جس طرح سے کرنا چاہیے تھا بلکہ ان اصلاحات کو لے کر حکومت ہمیشہ وسائل کی کمی کا رونا روتی نظر آئی ہے ۔دوسری بات یہ کہ حکومت بدلتے ہی ایک کے بعد دوسری تعلیمی پالیسیوں کا اعلان اور ہر پالیسی کا ہدف اگلے سال تک بڑھانا عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کیلئے صرف فنڈز مختص کرنے پر اکتفا کیا جاتارہا ہے ۔ عملی کام بہت کم ہے یہ تمام پالیساں کس حد تک کامیاب رہی؟ یہ ایک لمبی بحث اور ایک درد ناک باب ہے۔ مثال کے طور پر2000ء میں فریم ورک آف ایکشن پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا جس میں تربیت اساتذہ ، لڑکیوں کی تعلیم ، اور شرح خواندگی بڑھانے سے متعلقہ اہداف کا تعین کیا گیا جن میں بیشتر اہداف حاصل ہی نہیں ہو سکے۔ سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کا ویژن تھا کہ تمام سکولوں میں یکساں نصاب پڑھایا جائے ایک خوش آئند سوچ کی حامل ضرور تھی لیکن افسوس کہ اس پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو سکا۔ کسی بھی پالیسی کیلے اولین شرط یہ ہے کہ اس شعبے سے متعلقہ افراد کو اعتماد میں لے کر ان سے تجاویز لی جائیں کیونکہ کسی بھی انقلاب کیلئے دل سے آمادہ ہونا ضروری ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مجوزہ تجاویز بیرونی ممالک کے ہوتے ہیں جو وہاں کے حالات سے تو مطابقت رکھتے ہیں لیکن پاکستان کے حالات سے ہم آہنگ نہیں ہوتے لہٰذا یہ تجرباتی عمل بھی زیادہ دیر تک نہیں ٹک پاتا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض اصلاحات فنڈ دینے والی ایجنسیوں کے مشیران اعلی کی پیش کردہ ہوتی ہیں جو محض شعبدہ بازی ہوتی ہے ۔ چوتھی بڑی وجہ مؤثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔ہمارے ملک کے سیاستدان دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کیلے منصوبہ بندی کا وقت آتا ہے تو پھر ہمارے سامنے نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔ منصوبہ بندی کے ساتھ جڑی ہوئی ایک اور چیز احتساب بھی ہے جو کہ ہمارے ملک میں کسی تعریف کا محتاج نہیں ۔ ناکامی کی پانچویں وجہ سیاسی مداخلت ہے ۔ مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ جیسے ہی حکومت تبدیل ہو تی ہے تو ہر نئی حکومت سابقہ پراجیکٹ کو ختم کرکے نئے منصوبے متعارف کروادیتی ہے ۔ نتیجے کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پے در پے تعلیمی پالیسیوں کی بھرمار تو دیکھنے میں ملتی ہے لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ آج تک نظر نہیں آیا۔ ہمارے ملک کا تعلیم نظام نصاب سے لے کر امتحانی طریقہ کار تک کئی مسائل کا شکار ہے ۔ نصاب کا مقصد جدید دور کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ طلبہ کو اخلاقی ، روحانی ، مذہبی اور سائنسی لحاظ سے تربیت دینا بھی ہے ۔ نصاب ہی وہ ہتھیار ہے جس سے ذہن سازی کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا نصاب بھی فرسودہ ہے جو جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہے ۔ جس نصاب سے صرف رٹا لگا کر زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل ہوں اور عملی زندگی میں اطلاق مشکل ہوں تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کس قسم کے طلبہ پیدا کررہے ہیں؟ ہمارے طلبہ اپنے پرچے حل کرنے کے دوران غیر قانونی وسائل کی مدد لیتے ہیں ۔پرچوں کی جانچ پڑتال میں خوش نویسی اور پیش کش کو مواد سے زیادہ اہم گردانا جاتا ہے یعنی جس نے جتنی اچھی طرح رٹا لگایا ہوتا ہے اتنا ہی اچھا تاثر پڑتا ہے ۔ جس کی وجہ سے اکثر قابل طلبہ اپنی بھرپور محنت اور کارکردگی کے مطابق نمبر نہیں لے پاتے اور والدین کے دباؤ سے تنگ آکر اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔علاوہ ازیں ہمارے ملک میں تعلیمی نظام میں برابری نہیں ہے ۔ اس وقت پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی ادارے ہیں ۔ گورنمنٹ ادارے ، نجی ادارے اور مدارس ۔نجی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کے ساتھ کارکردگی بھی نسبتاً اچھی دیکھنے کو ملتی ہے۔جبکہ دیہی علاقوں کاجائزہ لیا جائے تو وہاں اب بھی گورنمنٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور اس فرق کی بنیادی وجہ وہاں فی کس ماہانہ آمدنی ہے۔شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے انہی خدشات کوپیش نظر رکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا
زندگی موت ہے کھودیتی ہے جب ذوق خراش
فیض فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش
لیکن ہماری حکومت کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی ۔ ایسی صورت حال میں عوام کو ہی میدان میں اترنا پڑتا ہے ۔ جس طرح گور نمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کرک میں معیاری تعلیم کی فراہمی خصوصاً نقل کے ناسور کے خاتمے کیلئے پروفیسر نعمت اللہ کی سربراہی میں”تحریک برائے تعلیمی و امتحانی اصلاحات کرک”کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی۔ اس تنظیم کے مقاصد اور منشور میں کرک سمیت تمام تعلیمی نظام میں خوش آئند اصلاحات نافذ کرنا ہے اور اس تحریک کو Anti Cheating Allienceکا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح ملک کے دیگر صوبوں میں بھی یہ انقلابی شعور اجاگر کیا جائے اور اس قسم کے تجاویز لی جائیں کہ ہر سکول اور کالج اپنے درج شدہ طلبہ کے فزیکل ویریفیکیشن کو یقینی بنانے کا پابند ہوگا ۔ دوسرا صوبے یا بورڈ سے طلبہ کی مائیگریشن کو کم کیا جائے ۔ اپنے ہی سکول کو امتحانی ہال بنانے کی بجائے پانچ یا آٹھ نزدیکی سکولوں کا ایک گروپ بنایاجائے اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کو الف بائی ترتیب سے رول نمبر فراہم کئے جائیں ۔ امتحانی ہال میں طلبہ کی گنجائش کے مطابق ان پانچ سکولوں کے تمام طلبہ کو بلا تفریق بٹھایا جائے ۔ تمام ایس ڈی اوز سے درخواست کی جائے کہ وہ ایماندار اور فرض شناس سٹاف کو ڈیوٹی کیلئے بھیجیں۔انسپکٹرز کی ٹیم بنائی جائے جو امتحانی ہال کا دورہ کرکے قانونی کارروائی کرنے کا مجاز ہو ۔ جب جزا اور سزا پر عمل ہوگا تو پھر کوئی مائی کا لال غلط کام کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔تمام فوٹوسیٹ اور سٹیشنری دکانوں کو تنبیہ کرکے نقل سے متعلقہ مواد کو ہٹایا جائے ۔ہر مضمون کیلئے سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ امتحان کا سربراہ مقرر کیا جائے تاکہ مارکنگ شفاف ہو ۔ نصاب سازی کے اصولوں پر عمل درآمد ہو ۔یہ ایک طویل المیعاد لائحہ عمل ہے جس کیلئے مسلسل محنت اوراخلاص کی اشد ضرورت ہے جس کے ثمرات آج نہیں تو کل بلکہ آئندہ چند سالوں میں ضرور دیکھنے کو ملیں گے ۔

مزید پڑھیں:  ''زما لویہ گناہ دادہ چہ پختون یم''