سیاسی مستقبل کے لئے ٹھوس فیصلے کا وقت

کسی جنگ کے دوران میراثی کے بیٹے کو جب بھرتی کے لئے بلایا گیا تو میراثی نے بڑا ہی پرحکمت جملہ ارشاد فرمایا کہ اگر جنگ لڑنے کی ذمہ داری میراثیوں کے کندھوں پر آنے کی نوبت آگئی ہے تو بہتر ہے کہ صلح ہی کر لی جائے اس سے ملتا جلتا جملہ رانا ثناء اللہ نے بھی دہرایا جس پر تحریک انصاف کی ترجمانی کرنے والے صاحب نے کہا کہ یہ جملہ ان کی نہیں ہماری طرف سے بنتا تھا لیکن مشکل امر یہ ہے کہ اب کام ہی خواجہ سرائوں سے لیا جانے لگا ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان پرلحیم شحیم خواجہ سرائوں کے حملے سے قبل بھی چند ایک واقعات میں خواجہ سرائوں سے ہی کام لیا گیا تھا تازہ واقعے میں رئوف حسن کے گال پر بلیڈ ماری گئی ہے اس پر خواجہ سرائوں کے گرو کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ”پارٹی” کے لوگوں کا کام نہیں ہوسکتا ان سے کسی طاقتور نے کام لیا ہوگا یقینا خواجہ سراء بے ضرر سی مخلوق ہوتی ہے جسے خلق خدا تنگ کرتی ہے کجا کہ وہ کسی مقبول عام جماعت کے شریف النفس ترجمان کو بلیڈ مارنے کی ہمت کریں بلیڈ مارنا ہی تھا تو شیر افضل مروت کی طرف خسرے بجھوا دیئے جاتے کہ مزہ چکھاتاسیاسی دنیا میں تو ہر کردہ ناکردہ کی ذمہ داری مخالف سیاسی جماعتوں اور حکومت پرڈالی جاتی ہے مگر یہاں دوسری کیفیت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ نامعلوم نہیں معلوم ہیں مگر نام نہیں لینے کا اس پس منظر کے بیان میں نشانیاں ہیں سمجھنے والوں کے لئے ویسے بھی آج کل اس طرح کی کارروائیاں اور اس طرح کی سیاست کو سمجھنا کچھ مشکل اس لئے نہیں ہوا کہ مشکلیں اتنی پڑیں کہ آسان ہو گئیں کامصداق معاملات کا رواج عام ہے ۔ میراثی کا پیغام صلح کچھ خلاف حقیقت بھی نہیں اور صلح جوئی کوئی غلط حکمت عملی بھی نہیں ہوتی وہ جو کسی اشتہار میں بچے کہتے نہیں تھے بس کردو اب بس مگر شاید انا او مفادات مزاحم ہیں کہ بس نہیں کی جا سکتی مگر اب اسے جاری رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ اس طرح کے دہان اب کھل گئے ہیں کہ اب ان کو بند کرنا آسان نہیں میں سوشل میڈیا کی بات ہی نہیں کرتی ایوان بالا و ایواں زیریں سے لے کر شادی بیاہ کی محفل تک اب کیا سیاسی مخالفین او ر کیا حامی ایک بات پر سبھی متفق نظر آتے ہیں کہ اب بس کرنی چاہئے ورنہ اور جگ ہنسائی ہوگی۔ سیاسی دنیا کا یہی حسن ہوتا ہے کہ بدترین مخالفین بھی دھیرے دھیرے نزدیک آنے لگتے ہیں اور دھیرے دھیرے پیار کوبڑھانا ہے حد سے گزر جانا ہے کے گانے کی حقیقت سامنے آنے لگتی ہے کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ جو ایک دوسرے پر بہتان طرازی کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے اورجوایک دوسرے کو برے القاب سے پکارے بغیر رہ نہیں سکتے تھے اب پینگیں بڑھ رہی ہیں اب نہ تو کوئی یہودی ایجنٹ رہا او ر نہ ہی ڈیزل کا تذکرہ ہوتا ہے اچھی بات ہو گی کہ سیاست سے اب چور چور کی بلاوجہ کی شور اور الزامات کی بوچھاڑ کی بجائے اب سنجیدہ سیاسی مذاکرات اور فساد کی جڑ اکھیڑ لینے پر اتفاق کی کیفیت بنے میں کبھی کبھی غور کرتی ہوں کہ اب سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ وہ یکے بعد دیگرے استعمال ہو رہے ہیں مگر تجاہل عارفانہ برت رہے ہوتے ہیں ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے تو وہ وقت آگیا ہے اس لئے کہ کل جو نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کا موقف تھا آج کم و بیش وہ عمران خان کا موقف ہے مگر اس کے باوجود بعد المشرقین کی کیفیت نہیں جاتی بے اعتباری ہی بے اعتباری رہتی ہے کہ کب کون کس سے مل جائے اور اس کی جگہ لے جو پہلے ان کی جگہ لے چکا تھا یکے بعد دیگرے کی قلابازی کا یہ عمل رک جائے تو ملکی سیاست کا رخ متعین ہو۔تازہ بڑی سیاسی پیشرفت میں جمعیت علما اسلام کے سربراہ فضل الرحمان نے اپوزیشن اتحاد ” تحریک تحفظ آئین پاکستان ” میں شامل ہونے کیلئے تحریک انصاف سے گارنٹی مانگنے کی تصدیق کردی جبکہ انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے سوال کیا کہ بات چیت وزیر اعظم ، صدر یا آرمی چیف کس سے کی جائے؟ سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اختلافات ختم نہیں کر سکتے تو اختلافات کو نرم تو کیا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ جس کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔اس برف کا پگھلنا تو غیر معمولی بات ہے پریس کانفرنس میں تو تحریک انصاف کے رہنمائوں کی خوشی دیکھی نہیں جاتی تھی حالانکہ انہیں ضبط کرنے کی ضرورت تھی جفادری سیاستدانوں کے چہرے کوئی پڑھ پائے تو توڑ مشکل نہیں البتہ مولانا صاحب درون خانہ کے احوال بتانے سے ہی گریز نہیں کیا بلکہ محتاط طرزعمل اپنا کر جو پیغام دیا اسے اگر ڈی کوڈ کیا جائے تو یہی مفہوم نکلے گا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کہ صرف ان کی یہ ملاقات کافی نہیں بلکہ ملاقاتوں کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے بجا کہا کہ ملک میں آئین و پارلیمنٹ کی حیثیت نہیں رہی، جمہوریت ہار رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ پاکستان میں آئین و قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں آج آئین نام کی کوئی شے نہیں ہے۔دوسری جانب کافی کچھ کہا گیا پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مولانا نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا اس پر مشکور ہیں۔ ملک بنانا ری پبلک بنتا جا رہا ہے، پنجاب میں گندم کرائسز پر کسان پریشان ہیں۔ کے پی کے میں معیشت بیٹھ گئی ہے اسد قیصر نے کہا کہ آئین کی بالادستی کیلیے تمام طبقات کو ایک ہونا پڑیگا، کیا قانون کی حکمرانی والے ملک میں رف حسن پر حملے جیسا واقعہ ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مولانا کو اللہ نے طاقت دی ہے، چاہتے ہیں یہ طاقت آئین کی بالا دستی کے لیے استعمال کریں ۔مولانا اور پی ٹی آئی میں بات آگے بڑھے تو لامحالہ نواز شریف تک جائے گی خواہ مجبور یوں کے باعث یہ اخفاء ہی میں رہے مگر مار گزیدہ ہی مار گزیدہ کا درد محسوس کرسکتا ہے جب تک اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کی غلطی کرنے والوں کو احساس نہیں ہوتا ان حالات سے نکلنا کسی ایک یا دو سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں اس کے لئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہو گی اور ملک میں ایسی نئی سیاست کی بنیاد رکھنی ہو گی جس میں دوسروں کے بل بوتے اور دوسروں کے کندھوں پر سوار سیاست سے توبہ تائب ہوا جائے اور خالصتاً عوام کی سیاست کرنی ہوگی تب جا کر جن بوتل میں بند کرنے کی راہ ہموار ہو گی ورنہ لیلائے اقتداران گلیوں میں رسوا ہوتی رہے گی اور ایوان کی راہداریاں تنگی دامانی کے باعث ویرانے اور انجانے پن کی وہ تصویر بنی رہیں گی کہ اس وحشت زدگی کی کیفیت کا مداوا نہیں ہوگا جو اب تک چلا آرہا ہے بال ایک مرتبہ پھربڑی مشکل سے سیاستدانوں کی کورٹ میں آگئی ہے اب وہ اسے کس طرح کھیلتے ہیں اور کس طرح واپس کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے البتہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مواقع باربار نہیں آتے اب فیصلہ کرکے ہی رہنا ہو گا اور دوسروں کے ہاتھ کھلونا بننے سے بچنا ہو گادوسری کوئی صورت نہیں اور بس۔

مزید پڑھیں:  اس کی کسر رہ گئی تھی