میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

سپریم کورٹ نے 17 سال پرانے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چار ملزمان کو بری کردیا، جن میں سے ایک کا چار سال پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب کے ضلع لودھراں میں17سال قبل ہونے والے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں گرفتار چار ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا۔ ان بری کئے گئے چار ملزمان میں سے ایک ملزم کا چار سال قبل جیل میں انتقال ہوچکا ہے۔اپنی زندگی کے جو سترہ قیمتی ترین سال ان ملزمان نے جیل میں گزارے اورایک تو رہائی اور انصاف کے انتظار میں راہی ملک عدم سدھار گئے اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے فیصلہ حق میں آنے کے بعد انصاف کس سے مانگا جائے قتل کے ایک مقدمے کا سترہ سال بعد فیصلہ آناعمر قید کی سزامکمل کرکے رہائی سے شاید زیادہ کی سزا ہے جو ہمارے نظام عدل پربھاری سوالات کا باعث ہے دیوانی مقدمات میں پوتے کوانصاف ملنے کا ضرب المثل راسخ ہوچکا ہے اب کسی کو بھی امید نہیں ہوتی کہ ان کی زندگی خواہ کتنی بھی لمبی ہواس کے دوران دیوانی مقدمے کافیصلہ سامنے آئے فوجداری مقدمے کی طوالت بھی سترہ سال کے لگ بھگ ہو گئی ہے تنقید ہر ادارے پر ہوتی ہے اور انصاف میں تاخیرکوانصاف کے خون سے تعبیر کیا جاتا ہے اب خود عدلیہ اورایوان عدل ہی سے سوال بنتا ہے کہ وہ خود ہی انصاف کرے کہ اس خاندان کو انصاف کیسے ملے گااس دوران ان کاجو کاروبار او روزگار تباہ ہواہے بچے بیوی اور والدین در بدر ہوئے اورخود انہوں نے قیدوبند کی جوصعوبتیں برداشت کیںوہ کس سے فریاد کریں جوعدلیہ مداخلت اور توہین کے معاملے میں حساس ہے اور ایسا ہونا اس کا حق بھی ہے مگراس طرح کے وہ فرائض جوا نصاف دینے کے متقاضی ہیں اس کی ادائیگی میں تاخیر کا سارا ملبہ تواس نظام پر بھی پڑتا ہے مگر منصفین بھی بری الذمہ نہیں ہمارے عدالتی نظام کایہی وہ نظام انصاف ہے جس کے باعث لوگ اپنا مقدمہ عدالت میں لے جانے کی بجائے خود ہی اس کافیصلہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور معاشرہ انار کی کاشکار ہوتا ہے کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں۔

مزید پڑھیں:  وزیراعظم کا قوم سے خطاب