کوئی اس شہر پشاور سے جدا کیسے ہو؟

تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے ، مگر جو مختصر سی تقریب گزشتہ روز منعقدکی گئی اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ عارضی طور پر ہی سہی تین بہت اچھے دوست بچھڑ رہے تھے اب یہ بچھڑنا واقعی عارضی ہی ثابت ہوگا یا پھر جیسا کہ کہا جارہا ہے ، مستقل جدائیاں اور دوریاں حائل ہوجائیں گی ، ایک تو کرنل(ر) احمد ضیاء بابر ہیں جوفی الحال تو مستقل طور پر اپنے بیرون ملک مقیم بچوں کے پاس جارہے ہیں کرنل صاحب پشاور کے باسی ہیں اورجاتے ہوئے یعنی آخری ملاقات میں انہوں نے وعدہ تو کیا کہ وہ اپنے شہر آتے جاتے رہیں گے ،اور اگر دوست آواز دیں گے تو وہ حاضر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ، ویسے بھی پشاور کے بارے میں یہ بات ایک ضرب المثل بن چکی ہے کہ جن کے اندر پشاور سانس لیتا ہے وہ اسے اپنی ذات کے اندر سے کسی طور بھی باہر نہیں نکال سکتے دو اور کون تھے اس حوالے سے پہلے ایک شعر ملاحظہ فرمالیں۔
راستے رزق کشادہ کے بہت ہیں ناصر
کوئی اس شہر پشاور سے جدا کیسے ہو؟
یہ شعر یار طرحدار ناصر علی سید کا ہے جو گزشتہ تقریباً دس سال سے ہر سال گرمیوں کے پانچ چھ مہینے امریکہ میں گزارتے ہیں ادبی تقریبات میں بھرپور شرکت کرتے ہیں اور گزشتہ سال توانہوں نے آتے جاتے لندن ، مانچسٹر وغیرہ وغیرہ کو بھی ٹچ کیا جبکہ اب ایک بار پھروہ اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکہ یاترا پر جائیں گے ۔احباب کئی سال سے ان پر زور دے رہے ہیں کہ پشاور کو مستقل طور پر خدا حافظ کہہ دیں چونکہ انہیں اب گرین کارڈ بھی مل گیا ہے اس لئے ان کی پشاور واپسی بھی ”عارضی” ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں سو ، مقامی فلاحی تنظیم کی جانب سے یہ الوداعی تقریب ان تینوں دوستوں کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی اس موقع پر معروف معالج ڈاکٹر خالد مفتی نے نہ صرف کرنل صاحب اور ناصر و بیگم ناصر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ اس موقع پر سب نے اپنے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا تاہم راقم نے کرنل بابر کے بارے میں گزشتہ سال سے جو محسوس کیا وہ بیان کرتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کرنل باہر نے جس تندہی سے فلاحی مشن کو آگے بڑھایا وہ کوئی اور شاید نہیں کر سکتا تھا ویسے تو افواج سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ ادب و شعر سے قدرے دور رہتے ہیں کہ یہ ادب و شعر کے لئے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں مگر جب خاطر غزنوی کی رحلت کے بعد ان کے گھر میں مستقل طور پر سنڈیکیٹ آف رائٹرز کی محافل کا انعقاد کچھ عرصہ چلنے کے بعد بند ہوگیا تو اس وقت ڈاکٹر خالد مفتی نے آگے بڑھ کر خاطر غزنوی کے اس فکری ورثے کو اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے اسے اپنی فلاحی تنظیم کے ساتھ منسلک کیا اور تب کرنل بابر نے جس جانفشانی سے سنڈیکٹ آف رائٹرز کی عام ماہانہ تقاریب کے ساتھ ساتھ اہم تقریبات جن میں پاکستان بھر سے اہم ادبی ثقافتی شخصیات کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی تھی(اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ) کا اہتمام کیا ، اس سے اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ کرنل بابر کے اندر بھی کہیں ایک قلمکار بکل مار کر چھپا ہوا خاموشی سے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے اور اس بات کا ثبوت چند ماہ پہلے تب ملا جب انہوں نے اپنی یادداشتیں تحریری صورت میں ایک اجلاس میں پیش کیںاسی موقع پرشرکاء محفل نے کرنل بابر کو مشورہ دیا کہ وہ ایسی تمام یادداشتوں کو کتابی شکل میں ادب نواز دوستوں کے حوالے سے کر دیں تب کرنل صاحب نے وعدہ کرلیاتھا اور جب راقم نے گزشتہ روز انہیں ایک بار پھر یاد دلایا کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا وعدہ کیا تھا تو اب اس پرکام شروع کردیں تاہم انہوں نے ایک ایسا عذر سامنے رکھا کہ ان کے ساتھ اتفاق کئے بناء نہیں رہا جاسکتا زیادہ وضاحت کے ساتھ ان کی بات کو بحث کاموضوع تو نہیں بنایا جاسکتا کہ بقول شاعر ، اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں ، اگرچہ ادب سے واسطہ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ذرا سی احتیاط کی جائے تو جس طرح کرنل صاحب سے پہلے کئی اہم اہل قلم کاتعلق بھی ان کے سابقہ ادارے کے ساتھ رہا ہے مثلاً کرنل(بعد میں میجر جنرل ) شفیق الرحمن تو مزاحیہ تحریروں کے حوالے سے ایک انتہائی اہم اور معتبر نام ہے ، اسی طرح کرنل صدیق سالک(بعد میں بریگیڈیئر) نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے (میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا) لکھ کرتاریخ پاکستان کے ایک اہم اورنازک پہلو پرانتہائی اہم دستاویز دی ، اسی طرح کرنل محمد خان کی کتاب(بہ جنگ آمد) دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں ایک خوبصورت فکاہیہ کتاب ہے ان کے علاوہ کرنل اشفاق حسین کی کتاب ”جنٹلمین بسم اللہ ” بھی ایک یادگار تحریر ہے میجر ضمیر جعفری مرحوم تو مزاحیہ شاعری کے حوالے سے امام اور ترین مقام کے حامل ہیںپھر سب سے بڑھ کر فیض احمد فیض جوعالمی شہرت کے حامل شاعر اورصحافی تھے وہ بھی فوج سے وابستہ ہوئے اور شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہ کر کرنل کے عہدے تک پہنچے اور پھر راولپنڈی سازش کیس میں دیگر سول اور ملٹری افراد کے ساتھ گرفتار رہے ، ان کے ساتھیوں میں کرنل(ر) ارباب نیاز(ارباب نیاز سٹیڈیم انہی کے نام پر ہے) اور جو ارباب جہانگیر خان کے بڑے بھائی تھے) کے علاوہ میجر محمد اسحاق بھی اسی کیس میں گرفتار ہوئے تھے فیض صاحب نے تو اس کیس کے دوران زندان نامہ تحریر کرکے اس دور کے امر کر دیاتھا جبکہ میجر اسحاق نے زندانہ نامہ کا جو طویل دیباچہ لکھا ہے اس کو بھی ادبی دستاویزات میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک کرم فرما مظفر علی سید کا تعلق فضائیہ سے رہا ہے وہ ادب کے ایک اہم نقاد کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں جبکہ میرے افسانوی مجموعے”بیانیہ” کا نام بھی انہوں نے ہی تجویزکیا تھا اور بھی لاتعداد افراد ماضی اور حال میں کار ادب سے جڑے رہے اور اب بھی ہیں ، بہرحال کرنل بابر کے بارے میں ایک بہت پرانے شعر کوتھوڑی سے تبدیلی کے ساتھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں
”کرنل” کام کرتا ہے
کرنل احمد ضیاء بابر کی سنڈیکیٹ آف رائٹرز کے لئے انتھک خدمات کو کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا ان تمام دوستوں کے بارے میں یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ ”جہاں رہیں ، خوش رہیں”
مجھ کومعلوم نہ تھی ہجر کی یہ رمز کہ تو
جب میرے پاس نہ ہوگا بھی تو ہر سو ہوگا

مزید پڑھیں:  بجٹ اور معاشی حقائق