گری ہوئی سیاست

ٹریکٹر ٹرالی، ڈیزل، عمرانڈو ٹیریان ،یوتھیا بروزن ۔۔۔۔۔۔۔تیلی پہلوان ،چور ،ڈاکو، نشئی، یہودی ایجنٹ ،میلو قطری، گیراجن ،فارمی چرگ، لکڑی، بوٹ پالشی ،بوٹ چاٹنے والا، گیٹ نمبر چار کی پیداوار، پراکسی، وڑ گیا ،کالا منہ والا، قبضہ گروپ ،مارشل لاء کی پیداوار، جعلی بھٹو، بلو رانی، پہلی ٹیکسی ،اوئے فلانے، اوے تو تیری تو، نیب زدہ نجانے کیا کیا الفاظ خود ہمارے سیاستدانوں کی زبانی بطور سیاسی زبان مروج ہوئیں، کسی کالم میں نے بھی پشاور سے ریلوے کے ایک سابق وزیر کو بلی کہہ دیا تو خاصے لوگوں نے پسند کیا ماموں بنانے کی اصطلاح بھی سیاسی وحکومتی حوالوں سے مروج رہی ،اصطلاحات و تلمیحات تو زبان وبیان کا حسن ہوتی ہیں لیکن ذرا غور فرمائیں کہ ہماری اسمبلیوں میں کس طرح کی گفتگو ہوتی رہی ہے اور کچھ سیاستدان کس طرح معتبری عمر کے ہونے کے باوجود اب بھی کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں ایک وقت میں ٹی وی دیکھنے کا جب کافی رواج تھا، لوگوں نے بچوں کو ان الفاظ خرافات سے دور رکھنے کیلئے ان کے ٹی وی دیکھنے پر قدغن لگادی تھی ،اب تو سیاسی پروگرام اس طرح شائد مقبول نہیں رہے پھر بھی نجی چینلز میں ریٹنگ کی دوڑ میں سبقت حاصل کرنے کی تگ و دو میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ،جب معاشرے کے دو مؤ ثر شعبوں یعنی سیاست وایوان اکھاڑے ہوں ،ذرائع ابلاغ اس کی تشہیر کو خلاف ادب جاننے کی بجائے حظ اٹھا نے کا ذریعہ بنا کر حوصلہ افزائی کے ساتھ پیش کرتے ہوں ،ایوان اکھاڑے اور صحافت زردی اختیار کر ے تو معاشرے کی سمت خود بخود منگنی نہ ہو تو کیا ہو، میرے خیال میں جو قانون سازی پنجاب اسمبلی میں ہورہی ہے بہتر ہوتا کہ اس میں سوشل میڈیا سے قبل سیاست دانوں کی گفتگو کا حوالہ دیا جاتا جو توہین وتضحیک سیاسی دنیا سے مروج ہوئی، اتنا تو سوشل میڈیا ئی لونڈوں نے بھی نہیں کیا وہ تو انہی سے سیکھا اور ساتھ میں تنخواہیں بھی پاتے رہے، کسی بھاری بھرکم خاتون کیلئے جب ایوان میں کھڑے ہوکر ٹریکٹر ٹرالی کا لفظ بولا جائے گا، ڈیزل کے القابات دیئے جائیں گے ،ایسی گفتگو ہوگی جسے سپیکر حذف کروادے ،نازیبا نامناسب اور خاص طور پر خواتین رکن پارلیمان پر بھپتی کسنا اپنی جگہ سخت صنفی زومعنی گفتگو ہوگی تو ضروت کسی اور قانون سازی کی ہو نہ ہو پہلے ان زبانوں کو تو لگام دینا چاہیے نا، بعد میں معافی مانگنے سے کیا ہوتا ہے ٹریکٹر ٹرالی کا نام پانے کے باوجود فحش مردانہ اشارے کی حرکت بھی کم شرمناک نہیں۔آج کل کی سیاست کا حال نہ پوچھ گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں کہا گیا حالانکہ جس وقت یہ کہا گیا اس وقت کی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاست دان طوائف اور تماش بینوں کی زد میں تھے جیسی اب ہے۔۔۔
مرد سیاست دان تو مرد سیاست دان خواتین اراکین جس طرح ماڈل کی طرح میک اپ کرکے آ تی ہیں لگتا نہیں کہ یہ اس معزز پارلیمان کی اراکین ہیں، مجھے تو ان کو دیکھ کر ایان علی یاد آ تی ہیں جو پوری میک اپ میں پیشیاں بھگتنے آ تی تھیں ،جب ان کے اور ان میں امتیاز نہ ہو تو پھر زیادہ گلہ مندی بنتی بھی نہیں اور اگر اس پر مستزاد یہ میک اپ زدگان ایشوز پر بات کرنے کی بجائے اپنے قائدین کی مدح سرائی کرنے لگتی ہیں تو خود اپنا گلہ کانٹے کو دل کررہا ہوتا ہے ان کو ذرا احساس نہیں کہ وہ کس قدر مشکلات کا شکار خواتین کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں جن کے مسائل کی کوئی حد ہی نہیں کچھ نازک اندام حسینائوں کی ادائیں تو ڈوب مرنے کی دعوت دے رہی ہوتی ہیں کہ اس سادگی پہ نہیں بلکہ بے شرمی سے کون نہ ڈوب مرے اے خدا ۔۔۔مرد اراکین کی رعونت قیمتیں سوٹ اور انداز وحرکتیں توبہ توبہ وہ بھی کیا دن تھے سیاست کے جب مولانا مودودی ،مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا نیازی اور ان کی پگڑی وعصاء مولانا عبد الحق، مولانا درخواستی، شاہ فرید الحق، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید خان، عبد الولی خان، میر غوث بخش بزنجو ،پیر صاحب پگارا ،محمد خان جونیجو، مولانا اسعد گیلانی، حیات محمد خان شیرپائو جیسے لوگ سیاست میں تھے ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے نواب آف کالا باغ گورنر تھے قائد اعظم سردار عبد الرب نشتر اور قائد ملت خان لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کا تو ذکر ہی کیا نوابزادہ نصر اللہ خان کا کیا کہنا دور حاضر میں نواز شریف بینظیر بھٹو یہاں تک کہ آ صف علی زرداری نے بھی کبھی قابل اعتراض گفتگو نہیں کی سراج الحق ،لیاقت بلوچ ،زاہد خان، میاں افتخار حسین بھی معقول لب ولہجہ اور مدلل گفتگو کرتے رہے ،لیکن مقبولیت میں سب سے آ گے ہونے کے باوجود عمران خان کا لب ولہجہ کم ہی مناسب رہا ہوگا ان عوامل کے پیشِ نظر اصلاح کی ابتدا ء اگر حکمرانوں اور سیاست دانوں اور ان کی سو شل میڈیا کی بد گو ٹیموں سے شروع کرنے پر زور دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اہل سیاست سیاست کو جس طرف لے جائیں گے اہل صحافت صحافت چھوڑ کر بھانڈوں کی سی روش پہ آ جائیں گے اسمبلیوں اور ٹی وی چینلز پر اور خاص طور صحافیوں کے لبادے میں یو ٹیوب چینلز پر جو گفتگو اور پراپیگنڈا ہوگا پگڑیاں اچھالنے اور گریباں چاکی کے جو مظاہر ہوتے رہیں گے تو معاشرے اور نوجوانوں کا خود بخود رجحان بد گوئی اور بہتان طرازی کی طرف ہی جانا فطری امر ہو گآ ہم کیوں غور نہیں کرتے اور اپنے بچوں کو کیوں اپنے ھاتھوں ایک ایسے لب و لہجے کا عادی بنا رہے ہیں جو ناقابل قبول اور ناقابلِ برداشت ہے۔۔۔
یہ تو برسبیل تذکرہ ہی ان کا ذکر ہوا ورنہ کہاں مولانا عبد السّتار نیازی نواب زادہ نصر اللہ خان مولانا شاہ احمد نورانی اور اس قبیل کے سیاست دان اور آ جکل کے یہ بھانڈ میراثیوں سے کام لینے والے عناصر اور اصطبل کے پلے گدھوں کی خرمستیاں جن پر ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کند کا پس مصرعہ حروف بحروف صادق آ تا ہے، پہلا مصرعہ خود چیک کریں تو مزہ آ جائے گا سوچ سوچ کے ذہن ماؤ ف ہوجا تا ہے کہ آ خر ہم کس سمت چل پڑے ہیں ہماری منزل ہے کہاں اور ہمارا بنے گا کیا کب تک ان غلام گردشوں کی بھول بھلیوں میں ہم بھٹکتے رہیں گے آ خر کب امید کے سورج کی کرنیں پھوٹیں گی کب خشک گھاس کی جگہ ہریالی لے گی اور کب اس ملک اور اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کی تقدیر بدلے گی وہ سورج کب طلوع ہوگا اور اس ظلمت کو کب زوال آ ئیے گا شاید کبھی نہیں یا کم ازکم ہم جیسوں کی موجودگی میں تو نہیں کہ ہم بے حسی کی ساری حدیں عبور کر چکے ہیں۔پھر یہ سوچ کر حوصلہ ہوتا ہے کہ رات کتنی بھی تاریک کیوں نہ ہو صبح صادق کا طلوع فطرت کا حصہ ہے روشنی کی باریک اور برق رفتار لہر نور کی کرن بن کر تاریکی کو اس طرح چیر کر نکلتی ہے کہ رات کی گہری تاریکی اور اس سے وابستہ یادیں سب محو ہو جاتی ہے بس امید کی اسی کرن میں اپنے بچوں کی مستقبل کی امید ہی سب کچھ ہے ہم ہوں نہ ہوں اس ملک میں ترقی و خوشحالی کا سورج طلوع ہو اور پاکستان تا بندہ وپائندہ رہے ایں دعا از من واز جملہ جہاں آ مین باد۔

مزید پڑھیں:  بجٹ اور معاشی حقائق