کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

ویسے تو ہمارے ہاں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اکثر اس قسم کی خبریں سننے اور پڑھنے کو مل جاتی ہیں مرزا غالب نے بھی تو کہا تھا نا کہ
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ کرتا کوئی دن اور
خبر یہ ہے کہ چار سال پہلے جیل میں مرنے والا ایک ملزم بری کر دیا گیا ہے ، سپریم کورٹ نے 17برس پرانے لودھراں قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چار ملزمان کو بری کردیا ہے جن میں سے ایک ملزم کا چار سال پہلے انتقال ہوچکا ہے ، مرزا غالب نے تو اپنے ایک جواں سال عزیز جس کا نام عارف تھا ، کے جوانی میں انتقال پر نوحہ لکھا جس کے کئی اشعار تو ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکے ہیں ، اگرچہ متوفی عارف اسیر جیل نہیں تھا البتہ اسیر زندگی ضرور تھا جسے کہ ہر ذی روح ہوتا ہے جبکہ خبر میں جس شخص کے چار سال پہلے زندگی کی قید سے آزادی عدالت کی رہائی کے حکم سے پہلے ہی ہو چکی تھی ، اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جسے زندگی کی قید سے رہائی کے چاروں سال بعد دنیاوی جیل سے رہائی کا حکم دیا گیا وہ بھی مرزا غالب کے عزیز ترین عارف کی طرح جواں سال تھا یا پھر جوانی کا دور گزار چکا تھا حالانکہ 13 سال جب قتل کے الزام میں گرفتار ہوا ہوگا تو تب وہ شاید جوانی کی دہلیز پر ضرور رہا ہو گا بہرحال جن مبینہ قاتلوں کو اتنی مدت جیل کی سلاخوں میں گزارنا پڑی ہے اور ان پر الزام ثابت نہیں ہوسکا تو ان کی زندگیوں کے اتنے سال کس جرم کی پاداش میں بے گناہی کے زہر بھرے جام پینے پر مجبور ہونا پڑا ، اس حوالے سے انگریزی کا ایک ناول بھی بہت مشہور ہے جس پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں ، اور جس میں جرم بے گناہی کا ایک اسیر اپنی جوانی کے بیس سال آہنی سلاخوں کے پیچھے کاٹنے کے بعد اصل قاتل کی گرفتاری کے بعد عدالت میں اسے یہ خبر سنا کر اس کی بے گناہی کا اعتراف کیا جاتا ہے تو وہ عدالت سے سوال کرتا ہے کہ کیا عدالت اس جوانی کے وہ بیس سال اسے لوٹا سکتی ہے جو اس نے جرم کئے بغیر سلاخوں کے پیچھے گزارے ۔ یہ تو عدالتی نظام ہے جو شاید یونہی چلتا رہے گا یعنی
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
نسوار تو اگرچہ ایک حقیر چیز سمجھا جاتا ہے اور نسوار استعمال کرنے والوں کے بارے میں عمومی تاثر کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے مگر صوبائی بجٹ کے موقع پر انگریزی مقولے کے مطابق ”فرام دی ہارسز مائوتھ” سنا گیا کہ نسوار عام لوگوں کی نہیں خاص لوگوں کی بھی چیز ہے بات تھی نسوار پر ٹیکس بڑھانے کی جس پر صوبائی کابینہ میں بحث کے دوران نسوار پر ٹیکس بڑی مدت سے نہیں بڑھائی گئی تاہم وزیر اعلیٰ کے بقول کابینہ میں یہ تاثر نمایاں تھا کہ نسوار عام آدمی استعمال کرتا ہے اس لئے اس پر ٹیکس بڑھانے سے احتراز کیا جائے تاہم بقول وزیر اعلیٰ کے انہیں اس روز پتہ چلا کہ نسوار عام لوگوں کے علاوہ خاص لوگوں کے استعمال کی بھی چیز ہے اس حوالے سے خود ہمارا ہی ایک شعر ہے کہ
کیا زمانہ تھا کہ ہر کوئی تھا رسیا پان کا
دل یہ مانگے مور اب نسوار ہونی چاہئے
ہمارے ہاں تو نسوار”کھائی” جاتی ہے یعنی منہ کے اندر ہونٹوں کے پیچھے رکھ کر یار لوگ”لطف اندوز” ہوتے ہیں جبکہ وسط ایشیاء کی ر یاستوں میں مدتوں سے ناک کے ذریعے سونگھنے والی نسوار کا استعمال کیا جاتا ہے جسے انگریزی زبان میں Snuf کہتے ہیں ناک والی نسوار روس اور ملحقہ ریاستوں میں زیادہ تر اشرافیہ کے لوگ ا ستعمال کرتے تھے اور وہ اپنی کوٹ کے اوپر والی جیب میں قیمتی پتھروں سے مزین چاندی کی ڈبیوں میں رکھ کر کسی بھی موقع پر کہیں بھی سونگھ کر اپنا نشہ پورا کرتے تھے ، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ناک والی نسواربھی قدیم دور سے پشاور ہی میں تیار کی جاتی تھی اور ایک خاص خاندان اس کاروبار سے جڑا ہوا تھا جنہیں پشاور میں”نسواری خاندان” کہا جاتا تھا ۔ اس سونگھنے والی نسوار کی ایک خوبی بھی ہے کہ سردی لگنے کی وجہ سے جب ناک بند ہو جاتی تھی تو ہماے ہاں بھی اس کے علاج کے لئے یہی نسوار سونگھنے کا مشورہ دیا جاتا جبکہ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں میں تو خصوصاً سردی کے دنوں میں یہ صورتحال عام ہوتی، اس لئے وہاں زکام کے خاتمے کے لئے سونگھنے والی نسوار کا استعمال کیا جاتا ، اب بھی ممکن ہے ا یسا ہوتا ہو گا ، اس کے برعکس ہمارے ہاں رائج (منہ میں رکھنے والی )نسوارکے کیا فوائد ہیں؟ اس پر کسی جانب سے بھی روشنی پڑتی نظر نہیں آتی بس ایک نشہ ہے جسے یار لوگوں نے نسوار کی بجائے ”روشن ضمیر” کا نام دے رکھا ہے۔
لیجئے جناب !سورج آگ برسارہا ہے بلکہ مسلسل برسانے پر کمر بستہ دکھائی دے رہا ہے اور خبروںکے مطابق مئی کا مہینہ جولائی سے زیادہ گرم ہو رہا ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ کی صورتحال نے ایک ممبراسمبلی کو اتنا پریشان کیا کہ موصوف نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر رحمن بابا گرڈ سٹیشن پردھاوا بول کراس پر قبضہ کر لیا اور تقریباً تین گھنٹے تک تمام فیڈرز کھولکر ”لوڈ شیڈنگ فری”صورتحال پیدا کر دی ہمارا اپناہی ایک شعر ہے کہ
وہ دسمبر کی طرح یخ بستہ
اورماحول پہ چھائی ہے مٹی
اگرچہ اس حوالے سے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے یعنی چند روز قبل ہی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے بھی وفاق کو چتائونی دی تھی کہ وہ بجلی کے نظام کو قبضے میں لے لیں گے خیبر پختونخوا کے عوام کا تو موقف ہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں پن بجلی سب سے زیادہ پیدا ہوتی ہے اور سستے نرخوں پر ہم سے خرید کر انتہائی مہنگے داموں ہم پر واپس فروخت کی جاتی ہے مستزاد یہ کہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ناجائز ٹیکس ہم پر تھوپے جاتے ہیں جس کا کوئی جوازسرے سے ہے ہی نہیں ۔ یہ معاملہ اپنی جگہ جبکہ نانبائی بھی دور کی کوڑی نکال لاتے ہیں اور عوام کو مسلسل لوٹنے کے باوجود فرما رہے ہیں کہ گیس لوڈشیڈنگ بند کی جائے نانبائی دیوالیہ ہو گئے ہیں گویا سبحان اللہ یعنی دوسو گرام کی جگہ 150 گرام کی روٹی 30 روپے میں عوام کوتھما کر بھی بے چارے دیوالیہ ہوگئے ہیں حالانکہ عوام تو ہی کہہ رہے ہیں کہ
عزت نفس کی کسوٹی ہے
کتنی مہنگی یہاں پہ روٹی ہے

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟