بزدلانہ اور خود غرضانہ پالیسی

عوام پریشان ہیں۔راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔تہجد کی نمازوں میں آہ و بکا جاری ہے۔ لیکن بظاہر یہی منظر نظر آرہا ہے کہ حکمران’ اپوزیشن اور ادارے سب امریکی ڈکٹیشن کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔
پاکستان بلکہ پوری دنیا میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ کسی ملک کے حکمران طبقوں’ اپوزیشن اور اداروں کو بیک وقت قابو کر چکا ہو ۔سوائے ایک بوڑھے شخص کے جو ڈی چوک اسلام آباد میں بیٹھا آنسو بہا رہا ہے ۔آنسو خشک ہو جائیں تو چلانے لگتا ہے۔چلاتے چلاتے تھک جائے تو فریاد کرنے لگتا ہے۔فریاد صرف ایک کہ رفح کے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام بند کروائیں۔ صیہونیوں نے غزہ کے35 ہزار کلمہ گو شہید کر دئے۔جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ مزید شہادتیں بند کروائیں۔سرکاری گماشتے رات کی تاریکی میں اس مجاہد کے پرامن دھرنے پر گاڑی چڑھا کر اس کے دو ساتھیوں کو کچل چکے ہیں۔لیکن یہ بہادر شخص چٹان کی طرح کھڑا ہے۔
خدا کے لئے اس بوڑھے کی فریاد سنیں۔ورنہ قیامت کے دن ان شہید بچوں سے پوچھا جائیگا کہ تمھیں کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ اور جب تمہیں ذبح کیا جارہا تھا۔تو اس وقت کچھ ایمان والے بھی موجود تھے جو ہاتھ سے نہیں۔زبان سے نہیں مگر کم از کم دل سے تو برا جان کر اس ظلم کے خلاف احتجاج کر سکتے تھے۔ اس دن ہمارے سر بھی جھکے ہونگے۔اور ہمارا واحد آسرا اور شافع محشر بھی ہم سے منہ موڑ لے گا کیونکہ ہم ان شہیدوں کی شہادت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔اگر یوم آخرت کی ذلالت سے بچنا ہے تو اٹھو اور اپنے بستر اٹھا کر سڑکوں اور شاہراہوں کے کناروں پر خاموشی سے لیٹ جاو۔کوئی سڑک بند کرنے کی ضرورت نہیں ۔کسی توڑ پھوڑ کی ضرورت نہیں۔ ملکی املاک کو نقصان پہنچانے سے گریز اور فوج وپولیس کی عزت و تکریم لازمی ۔ بس ایک خاموش احتجاج جو ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے۔اگر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا دس فیصد یعنی ڈھائی کروڑ بھی اس خاموش احتجاج میں شامل ہو گیا۔ تو سیکورٹی ادارے عوام سے آملیں گے۔ اور امریکی گماشتے راتوں رات ملک سے فرار ہوجائیں گے۔
سیکورٹی ادارے ایک حد تک ہی اپنے عوام پر سختی کرتے ہیں۔اس کے بعد ان کی بندوقوں کا رخ ناجائز حکم چلانے والوں کی طرف ہو جاتا ہے۔ ماضی قریب کی مثالیں مشرقی یورپی ممالک اور ایران کی ہیں۔ وقت آنے پر ہمارے سیکورٹی اداروں کے اندر بھی ایمانی قوت کے تاریخی مناظر دیکھنے کو ملیں گے ۔کیونکہ ان میں ہمارے ہی بھائی ‘ بیٹے ‘ بھانجے اور بھتیجے ہیں۔باہر سے کوئی نہیں آیا۔ 1977 میں ہمارے دو قابل فخر بریگیڈیئرز نے بھٹو کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر کے اپنی پیٹیاں اتار پھینکی تھیں۔
ایمانی قوت کی یہ لہریں دنیا کے گوشے گوشے تک پھیلیں گی۔جس کے بعد میدان جنگ میں کودے بغیر ترکی ‘ ایران ‘ مصر اور سعودیہ کے ساتھ مل کر ایک جارحانہ ڈپلومیسی شروع ہوگی۔ جس سے نہ صرف رفح کے مظلوموں کا قتل عام رک جائیگا۔بلکہ فلسطین کے مسلے کا دو ریاستی حل تلاش کرنے کے لئے اسرائیل ‘ یورپ اور امریکہ بھی سوچنے پر مجبور ہونگے۔ جس میں ایک مکمل طور ہر آزاد اور خود مختار فلسطین کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس ہو ۔ اس کے بعد بھی پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک کا کردار ادا کرتے ہوے پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے کھل کر میدان میں موجود رہیگا۔
یہ محض شیخ چلی کا خواب نہیں ۔بلکہ نیوکلئیر طاقت رکھنے والی 25 کروڑ جری قوم کی حقیقی طاقت کی روشنی میں ایک حقیقی تجزیہ ہے۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے پر بیت المقدس میں مسجد اقصی کے امام نے منبر پر کھڑے ہوکر صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوے ان کو تنبیہ کی تھی کہ ہم پر مظالم چھوڑ دو۔ ورنہ اب ہمارے پاس بھی ایٹمی طاقت آگئی ہے۔ جی ہاں ‘ہمارے پاس’ ۔ یہ نہیں کہا کہ پاکستان کے پاس۔ اب جبکہ ان پر صیہونیوں کی طرف سے قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ غزہ کھنڈر بن چکا۔ غزہ کے ہر گھر سے جنازے اٹھے ہیں۔حماس سر براہ اسماعیل ہانیہ کے اپنے دو بیٹے اور بھانجے بھتیجے شہید ہو چکے ہیں۔اور دو بیٹوں کی شہادت پر نڈھال اس کی اہلیہ پھر بھی اللہ اکبر کہہ کر صحافیوں کے سامنے وکٹری کا نشان بنا رہی ہے تو ہم ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم بنے آنکھیں چرا رہے ہیں۔اسی اسماعیل ہانیہ اور دوسری حماس قیادت نے غزہ جنگ کے آغاز پر کچھ پاکستانی مذہبی لیڈروں کے ساتھ ملاقات میں صاف صاف کہا تھا کہ ہمیں سب سے ذیادہ توقعات پاکستان سے ہیں۔
لیکن پاکستان۔۔۔۔ پاکستان کو تو آئی ایم ایف سے چند ٹکے ملنے کا انتظار ہے۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف انسانیت کا درد رکھنے والے لاکھوں طلبا اور دوسرے ہمدرد انسان روزانہ مظاہرے کر رہے ہیں۔لیکن ہم اپنے ہاں پر امن مظاہرے یا ایک ہرامن دھرنے کی بھی اجازت نہیں دے رہے۔

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں