دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ وفاقی بجٹ سے مشروط کر دیا ہے، وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ملازمین کی تنخواہوں میں جتنا اضافہ کرتی ہے اس تناسب کے ساتھ صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ ملازمین نے تنخواہوں میں اضافے اور دیگرمطالبات پیش کئے ہیں، یہ تمام مطالبات نوٹ کر لئے ہیں، ان کے تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی بنائی جائے گی جس کیلئے وزیراعلیٰ سے رابطہ ہوا ہے، اس کمیٹی میں6سیکرٹری ، وزیر خزانہ اور احتجاجی مظاہرین کے6ممبران شامل ہوں گے۔وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصداضافہ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے کیا ہے ،وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ صوبائی ملازمین کی تنخواہیں وفاق حکومت کے اعلان کردہ تنخواہوں سے زیادہ بڑھائی جائیں گی لیکن فی الحال مرکز نے اعلان نہیں کیا ہے، ان کی طرف سے اعلان ہوجائے تو تنخو اہوں پر نظر ثانی کر دیں گے۔ اس سے قبل آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے خیبر روڈ کو ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بند کیا جس میں بڑی تعداد میں ملازمین نے شرکت کی جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز او بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے۔ہمارے تئیں بجٹ اور مالیات ایسے شعبے ہیں جس کا انحصار کلی طور پر دستیاب وسائل اور اس کے خرچ کے انتظام پر ہوتاہے ،خیبر پختونخوا کا بجٹ وفاق سے پہلے کن اندازوں اور تخمینوں کے مطابق بنایا گیا تھا اس حوالے سے محکمہ خزانہ کے کرتا دھرتا ہی بہتر جانتے ہوں گے، ہمارے تئیں تو یہ مفروضوں پر مبنی بجٹ ہے جس میں وفا ق کی جانب سے اعلانات کے بعد کافی ردوبدل کی ضرورت پڑے گی ،ماضی میں تو وفاق کے اعلانات اور وسائل کے حوالے سے اعداد و شمارجاری کرکے وعدے کے باوجود اس کے عدم ایفاء پر صوبائی بجٹ سرپلس سے خسارے میں تبدیل ہونے اور اہداف کے حصول میں ناکامی جیسی صورتحال پیش آتی رہی ہے ،اس مرتبہ تو شاید خود وفاق اس مشکل کا شکار ہے کہ اخراجات کیسے پورے کئے جائیں اورقرضوں کی واپسی کیسے ہو؟، صرف یہی مسئلہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنا اور ان کو پورا کرنے کی راہ نکالنا بھی کارے دارد بہرحا ل یہ تو وفاقی میزانیہ کے سامنے آنے پر ہی علم ہو گا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بجٹ پیش کردیاگیا ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کابھی اس میں ذکر ہے جس شرح سے ان کی تنخواہوں میں اضافہ تجویز ہے وہ سرکاری ملازمین کو منظور نہیں، اس کیلئے انہوں نے احتجاج کیا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں کہ سرکاری ملازمین بجٹ سے مطمئن ہوں اور پہلے دبائو ڈالنے کی پالیسی اور بعد میں احتجاج کا راستہ نہ اپنایا ہو، سرکاری ملازمین خود کو اس ملک کامالک اور اس ملک کاانتظام چلانے کے دعویدار ہیں ،مگر سرکاری مشینری کی کیا حالت ہے اور عوامی مسائل کا کیا عالم ہے اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں، اس کے باوجود کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ بغیر خسارے میں نہیں، جس بھی سرکاری ادارے کا انتظام سرکاری افسران اور عملے کے ہاتھ میں ہو خسارہ تباہی بندش اور نجکاری بالآخر اس کا مقدر ہے اور جن محکموں کو ایسا کرنا ممکن نہیں ان محکموں کی کارکردگی سے عوام کس قدر نالاں اور مشکلات کاشکار ہیں اس کے ان کوکوئی غرض نہیں ،انہوں نے ہر سال بجٹ پر تنخواہوں میں اضافہ اور مراعات لینی ہیں، بہرحال اس کے باوجود کہ عوام اور عام آدمی کو تو نان جویںکے لالے پڑے ہوتے ہیں پھربھی سرکاری ملازمین کی ا شک شوئی کے بغیر حکومت چلانا ممکن نہیں ،اس لئے اس کا تعین کئے بغیر کہ ان کی کارکردگی کے باعث تعلیم و صحت جیسے شعبوں کی کارکردگی کیاہے کس محکمے میں کتنی بدعنوانی ہوتی ہے سرکاری افسران اورملازمین جائز ذرائع کے علاوہ ناجائزذرائع سے کس قدر مراعات اور مفادات سمیٹتے ہیں اس کا تو احتساب ہونہیں سکتا اور حکومت بادل نخواستہ بھی اس شرط کے بغیر کہ بدلے میں سرکاری ملازمین بھی ذرا خوف خدا کامظاہرہ کریں گے ان کی تنخواہوں میں بہرحال اضافہ کرنا مجبوری ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جانب صوبائی حکومت وفاق کوخاطرمیں لائے بغیر قبل از وقت سرپلس بجٹ پیش کرکے بیٹھی ہے اور سرکاری ملازمین کے احتجاج پر ان کو وفاق کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے جوڑ رہی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاق کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصداضافہ کیا جاتا ہے تو صوبائی حکومت اس پانچ فیصد کا انتظام کہاں سے کرے گی اور بجٹ میں ردوبدل کی صورت میں بجٹ کی ہیئت کا کیا ہوگا؟،کوئی بھی بجٹ سرپلس پیش ہوا ہے اور آخر میں بھاری ضمنی بجٹ کی منظوری نہ دی گئی ہو ایسا شاید ہی ہوا ہو، موجودہ حکومت تو نگران حکومت کے بھاری بجٹ اور اس سے قبل کی حکومت کے بجٹ سے تجاوز کو بھگت چکی ہے اور خود مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے وفاق سے بھی کسی بڑی اچھائی کی امید نہیں، ایسے میں سرکاری ملازمین کے ہل من مزید کا مطالبہ کہاں سے پورا کرے گی؟، یہ سوملین ڈالر کا سوال ہے، بہرحال اس کا جواب وفاقی میزانیہ سے مشروط ہے جس میں زیادہ وقت اور عرصہ باقی نہیں۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن