قابلِ غور خط

کچھ لوگوں کی سوچ مختلف ہوسکتی ہے اس سے اختلاف بھی روا ہے لیکن کسی کی سوچ اور ان کے خیالات کو اس لئے یکسر رد نہیں کیا جاسکتا کہ آ پ اس سے متفق نہیں متفق ہونا ضروری بھی نہیں کبھی دستی کبھی ڈاک اور ای میل پر چیزیں آ تی ہیں اور اندازہ ہوجا تا ہے کہ لوگ کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں بہت سارا مواد ادارتی ڈیسک ہی نمٹاتا ہے صرف خلاصے سے آ گاہی ہوتی ہے کچھ چیزیں صرف پڑھنے کی ہوتی ہیں بعض ایسے مواد بھی ملتی ہے کہ اس پر کالم لکھنے کی اس لئے بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ذرا مختلف سوچ سے آ گاہی ہو اسی طرح کے ایک مراسلے کی تلخیص یہ ہے کہ ہمارے اکثر نہیں تو بعض علماء کرام ایک تسلسل کے ساتھ عصری علوم کے اداروں اور ان کے ماحول کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان کے اسی طرح کی تشریح وتبصرہ ممکن نہیں وہ تو سراسر ان اداروں کو الحاد اور فحاشی کے اڈے گردانتے ہیں ان کے نزدیک ان میں سوائے اس کے کچھ ہوتا ہی نہیں وہ اپنے خیالات میں حق بجانب ہوں گے وہ جو رائے قائم کرنا چاہیں ظاہر ہے اس پر قدغن تو نہیں لگائی جاسکتی مجھے بھی ان کی سوچ پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جب میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں کہ میرے سمیت درجنوں نہیں بلکہ زیادہ سفید ریش افراد پر کیا گزرتی ہوگی جن کی بیٹیاں عصری علوم کے اداروں میں جاتی ہیں عصری علوم سیکھتی ہیں اور معاشرے میں مقام حاصل کرتی ہیں مولوی حضرات کو بیوی کے معائنے کیلئے گائناکالوجسٹ خاتون چاہیے ہوتی ہے ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ بھی خاتون ہی کرے یہاں تک کہ نادرا میں بھی تصویر خاتون ہی لے اسی طرح جہاں جہاں جانا پڑے خواتین کے معاملات خواتین ہی طے کر نے کیلئے موجود ہوں خود بھی ائر ہوسٹس سے کولڈرنک پینے سے احتراز نہیں فرماتے نرس انجکشن لگانے آ جائے تو موصوف کو مسئلہ نہِیں مگر لڑکیاں سکول وکالج جائیں تو ان کو مسئلہ ہے دو عملی کی بھی حد ہوتی ہے آ خر۔
لیکن دوسری جانب اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے کی ان پڑھی لکھی خواتین بھی کچھ کم نہیں زیادہ نہیں میں صرف راستے میں بعض بچیوں اور خواتین کے طرز عمل پر حیران ہوتا ہوں کہ ان کے والدین اور گھر والوں اور تعلیمی اداروں میں کسی نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ راستے پر محفوظ اور باوقار انداز میں چلنے کیلئے بچیوں اور خواتین کو راستے کا ایک طرف اختیار کر نا چاہیے یہاں جس کو دیکھو سیدھا درمیان سے جا رہی ہوتی ہیں مرد بے چارے مارے حیاء کے ان کیلئے راستہ چھوڑ جاتے ہیں اور کچھ کھلنڈرے کہنی ماردیں تو ہراسانی کا شور مچتا ہے میں خود کئی مرتبہ اس طرح کے حالات میں تیزی سے راستہ دینے کی کوشش میں گرتے گرتے بچا ہوں قریب سے گزرنے پر بازو بچانا تو معمول کی بات ہے خواتین مردوں کی برابری ضرور کریں مگر خود کے خاتون ہونے کا خیال بھی کریں اس کے بعد مردوں سے ہمسری کریں اور خود کو منوائیں ویسے دیکھا جائے تو اب اس کی ضرورت ہی نہیں وہ کونسا شعبہ اور میدان ہے کہ وہ مردوں کے ہمسر نہیں بلکہ برتر نہیں خوشی ہوتی ہے ان کی کامیابی دیکھ کر مگر توجہ رہے کہ قدرت نے ان کو صنف نازک پیدا کیا ہے وہ آ بگینے ہیں بس خود کو تیز ہوا سے بچاکے رکھیں میں نے عموماً دو قسم کی خواتین کا طرزِ عمل دیکھا ہے ایک وہ جو طوفانوں سے ٹکرا جاتی ہیں اپنی صنف نازک ہونے کا گلہ نہیں کرتیں اور وقار سے مردوں کا مقابلہ کرتی ہیں اس طرح کی خواتین کو مرد بھی خوشی سے عزت دیتے ہیں جو اپنی وقار کا خود خیال کرتی ہیں اور جو ایسا نہیں کرتیں سب سے زیادہ ہراسانی کا بھی وہی شکار ہوتی ہیں میں مخلوط طرزِ تعلیم کا مخالف ہوں لیکن پرائمری سطح پر مخلوط تعلیم ضروری ہے اس لئے کہ ابتداء میں معصوم سنی میں جب بچیوں کو لڑکوں سے مل کر پڑھنے اور ان کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے تو لڑکے ان کیلئے خلائی مخلوق کا درجہ نہیں رکھتے اس نفسیات کے ساتھ ان کو آ گے جاکر جامعہ کی سطح کی تعلیم میں مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور جن کیلئے یا جو لڑکوں کو خلائی مخلوق سمجھتی ہیں تو ان کا واسطہ بھی پھر انہی سے پڑتا ہے۔
آ گے لکھتے ہیں کہ ٹھہرئے میرے بارے میں کوئی رائے خود سے قائم نہ کریں میں ساٹھ سال کا سفید ریش ہوں داڑھی مولوی کی نہیں سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے میں بھی الحمدللہ مسلمان ہو ں جو مولویوں کے بارے مشاہدہ تھا یا جو بعض بچیوں اور خواتین کے بارے مشاہداتی اور تجربے کی بنیاد پر رائے تھی دونوں سامنے رکھا مجھے علماء کرام سے کوئی پرخاش نہیں لیکن بعض مولوی حضرات کا یہ رویہ بھی قابل برداشت نہیں کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے جو خامیاں ہیں وہ سو ہیں ان کا بیان کریں اس کی نشاندہی کر یں سب کو تو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں الحمدللہ ہم سب مسلمان ہیں جو بچیاں پردہ نہیں کرتیں ماڈرن لباس پہنتی ہیں وہ اس حد تک گناہ گار ضرور ہوں گی مگر ہیں وہ بھی مسلمان ان کو پردے کی تلقین ضرور ہونی چاہیئے جامعات میں مناسب ڈریس کوڈ کی بھی ضرورت ہے اس سے انکار نہیں مگر ان کو خدارا کفر والحاد کی طرف نہ ہانکئے ان کو مسلمان سمجھ کر اصلاح کی بات کیجئے اسی طرح شیو کرنے والے نوجوان طالب علم بھی دائرہ اسلام سے خدا نخواستہ خارج نہیں وہ بھی مسلمان اور ان کی بھی اصلاح کی پوری گنجائش اور امید قوی ہے کہ وہ بھی اپنے رب کی طرف رجوع کریں گے دیر یا بدیر انشاء اللہ تعالیٰ۔
خط کافی طویل اور دلچسپ ہے باقی پھر سہی مختصراً ان کے مشاہدے اور خیالات کے لفظ لفظ سے اتفاق ہے کہ علماء کرام کو لوگوں کو دور کرنے کی بجائے نزدیک کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے یہی عصر حاضر کے تعلیم یافتہ لوگ ہی ہیں جو الحمدللہ مدارس اور مساجد کو سپورٹ کرتے ہیں ان کے تعاون ہی سے طلباء دینی تعلیم حاصل کرکے علماء کرام بنتے ہیں علمائے دین اور خواتین کے بارے میں ایک بزرگ کی مشاہداتی تحریر چشم کْشا ہے یہ ایک ایسا آ ئینہ ہے جس میں عصری تعلیم حاصل کرنے والوں علماء کرام اور خواتین و بچیوں سبھی کو اپنا چہرہ دیکھ کر سنوارنے کی سعی کرنی چاہیے اور بس۔۔۔۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن