آواز دوست

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کیلئے عدلیہ اور فوج کے سربراہ سمیت سب کو ساتھ بیٹھنا ہو گا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ماضی کو دیکھنا ضروری ہے لیکن اس میں رہنا ضروری نہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے ماضی میں رہنا ہے یا آگے بڑھنا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر لیڈرکے خلاف غداری کا فتوی لگا دیا جاتا ہے، اگر کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کارروائی ہونی چاہیے لیکن حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ الزامات لگائے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ایک جماعت آج زیر عتاب ہے اور جو بھی جماعت زیر عتاب ہوتی ہے وہ وہی باتیں کرتی ہے جیسی آج پی ٹی آئی کررہی ہے، مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی یہی باتیں کر چکی ہیں، اس سے سبق حاصل کریں کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچا کیسے ہے، اس سے سبق حاصل کر کے آگے دیکھیں، اگر کسی کے پاس بہتر راستہ ہے تو میں اس کی بات سننے کے لئے تیار ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اکٹھا بیٹھنا پڑے گا، جو ملک آپس میں جنگ کرتے رہے ہیں وہ بعد میں آپس میں بیٹھے ہیں، آج ملک کے بے پناہ مسائل ہیں اور عوام تکلیف میں ہیں، کیا ملک کے چھ سات لوگ اکٹھے میز پر بیٹھے نظر نہیں آسکتے؟، ان کرسیوں کو ایک طرف کردیں ان میں پاکستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں جن چھ سات لوگوں کی بات کررہا ہوں ان میں چار بڑے سیاسی لوگ ہیں، ساتھ میں فوج کے سربراہ اور عدلیہ کے سربراہ بھی بیٹھیں، یہ سب لوگ ارباب اختیار بھی ہیں اور ارباب اقتدار بھی ہیں، یہ ایک ہائبرڈ حکومت ہے اور آنکھیں بند کرنے سے حکومت نہیں بدلے گی۔سابق وزیر اعظم جو ابھی ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی تیاری میں ہیں ایک صاف گو اور سادہ مزاج رکھنے والی شخصیت ہیں اگرچہ بظاہر ان پر کرپشن کا کوئی بڑا الزام نہیں لیکن پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کوڈبونے میں ان کا کردار بہرحال ان کے دامن پر وہ داغ ہے جسے آسانی سے دھویانہیں جا سکتا بنابریں ان کو وہ درجہ نہیں دیا جا سکتا کہ جس دیانتداری کی کسی مخلص سیاستدان سے توقع کی جا سکتی ہے حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے دامن پر کوئی نہ کوئی داغ اور ا لزام ضرور ہے ایسے میں دیانتداری کے دعوے کے ساتھ اگر کوئی سیاسی جماعت ہوسکتی ہے تو وہ ممکنہ طور پر جماعت اسلامی ہی ہوسکتی ہے جس کی قیادت پر کوئی قابل ذکر الزام نہیں لگا اور سیاست و وزارت میں ہونے والوں کی مالی حیثیت میں کوئی نمایاں اضافہ کانہیں سنا گیا البتہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے بعض وزراء کے حوالے سے شنید ضرور ہے کہ ان کا لائف سٹائل تبدیل ہوا لیکن بہرحال یہ انفرادی ہی شمار ہوگامجموعی طور پر ان کے حوالے سے اچھا تاثر ہے جسے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے تسلیم بھی کیا جاتا ہے اصولی طور پر جس چیز کا سابق وزیر اعظم بیڑا اٹھانے کی فکر میں ہے جماعت اسلامی کی قیادت کو اس کیلئے آگے آنا چاہئے جسمیں استطاعت بھی ہے اور استعدادبھی بہرحال یہ تو برسبیل تذکرہ ہی ہے جہاں تک سابق وزیر اعظم کے خیالات کا تعلق ہے اور انہوں نے خاص طور پر جس سطح کے مکالمے کی بات کی ہے وہ سیاسی سطح سے بالاتر اور ملکی مفاد کے عین مطابق قابل عمل تجویز ہے جس سے قصر صدارت سے لے کر وزیر اعظم ہائوس اور جیل سے لے کر جدوجہد کرنے والے کسی سیاستدان اور جماعتی قائدین کو اختلاف نہیں ہو سکتااور ہونابھی نہیں چاہئے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ وطن عزیز جس دوراہے پر آج کھڑا ہے وہاں ماضی میں جھانکنے اور احتساب کے مطالبے کی بھی گنجائش نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور لمحہ موجود سے اس طرح کی غلطیوں کے عدم اعادے کا عزم اور قوم سے وعدہ کیا جائے اصولی طور پر تو احتساب کامطالبہ بنتا ہے مگر جہاں اس طرح کے مطالبے کی دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے سے زیادہ کی حیثیت نہ ہونا نوشتہ دیوار ہو وہاں گزشتہ راصلواة ہی مناسب امر سمجھا جانا مجبوری کا نام شکریہ کے ضمن میں شمار ہوگا۔ اس وقت ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام کے جس دوہرے قومی چیلنج کا سامنا ہے اس میں کسی کو دیوار سے لگانے کے عمل کی گنجائش ہی نہیں غلطیوں کا تذکرہ ضرور ہونا چاہئے جو غلطیاں اورکوتاہیاں ہوئی ہیںاس کا ادراک و اعتراف بہرحال ضرورہنا چاہئے دیکھا جائے تو اس طرح کا عمل کسی ایک سیاسی جماعت سے ہی سرزد نہیں ہوا ہے بلکہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھی ا غلاط سے مبرا نہیں ایسے میں بعض کی گردن کی شہتیر کو نظر انداز کرکے دوسرے کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے کے عمل کا کوئی فائدہ نہیں اس سے سوائے تضادات میں اضافے کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا قومی سطح پر مکالمہ وقت کی آواز ہے اور یہ آواز دوست جس جانب سے بھی آئے اسے سننا اور متوجہ ہونا ناگزیر بن چکا ہے تاخیر سے تضادات میں اضافہ اور سوائے خسران کے کچھ نہ ملے گا۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟