اقصی کالنگ !!!

مشہور روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک پرندہ اپنی ننھی سی چونچ میں پانی کے دو بوند لئے سرعت کے ساتھ ہوا میں پرواز کررہی تھی۔ اسی دوران سامنے سے آنے والے پرندے نے بے چینی کی وجہ پوچھی تو پرندے نے جوابا عرض کیا کہ اس پانی سے میں نمرود کی طرف سے حضرت ابراہیم کو جلانے کیلئے لگائی جانے والی آگ کو بجھانے کی کوشش کرونگی۔ پرندے نے حیرت سے پوچھا، تم اس دو بوند پانی سے اس آگ کے بھڑکتے شغلوں کو کیسے بجھاوگی؟ پرندے نے جواب دیا مجھے خوب اندازہ ہے کہ میری اس دو بوند پانی سے وہ آگ بجھنے والی نہیں۔ میں تو بس اللہ کے حضور اتمام حجت کیلئے یہ سب کچھ کررہی ہوں کہ کل جب اللہ کے حضور میری پیشی ہو تو میں صرف اتنا کہہ سکوں کہ اے اللہ میں تو آگ لگانے والے ٹولے میں شامل نہیں تھی بلکہ میرا شمار ان لوگوں کی صفوں میں کر جو اس آگ کو بجھانے والوں میں شامل تھے۔ شاید اسی بات کو لے کر سینیٹر مشتاق احمد نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجیتی کیلئے گزشتہ تقریبا پچیس دنوں سے پنڈال سجایا ہوا ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ فلسطینی عوام سے اظہار ہمدردی کیلئے آتے رہتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد کے مطابق تقریبا تین ہفتوں پر محیط اس احتجاجی دھرنے کا بنیادی مقصد فلسطینی عوام سے اظہار یکجیتی کیلئے ملک بھر کے عوام کو ایک ایسا مکمل غیر سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جہاں ہر مکتبہ فکر اور ہر قسم کے سیاسی وغیر سیاسی تناظیم اور سول سوسائیٹی کے نمائندہ اداروں کو اس عظیم مقصد کیلئے اپنی کوششوں کو مجتمع کرنے اور اپنی آواز کو مذید بلند کرنے کا موقع مل سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہرپاکستانی سوال اٹھارہاہے کہ آج نہتے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے بد ترین مظالم کے خلاف دنیا خاموش کیوں ہے؟ ہم بحیثیت مسلمان یہ دعوی تو کرتے ہیں کہ امت محمدیۖ کی حیثیت سے سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں لیکن آج امت مسلمہ کی دینی غیرت اور حمیت کہاں کھو گئی ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آج چونتیس مسلمان ممالک کی مشترکہ فوج کہاں ہے؟ آج فلسطینی عوام پر کڑا وقت ضرور ہے لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف انکا امتحان ہورہا ہے۔ امتحان ان کم و بیش دو ارب مسلمانوں کا بھی ہورہا ہے جو آج اس مسئلے سے اپنے آپ کو لا تعلق کئے بیٹھے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ پچھلے پچیس دنوں سے یہ دھرنا جاری ہے لیکن حکمرانوں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ صیہونی طاقتوں کے ہاتھوں خون میں رنگے نہتے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے دو بول بھی نہیں بول سکتے۔
پچھلے سال سات اکتوبر سے لے کر آج تک گزشتہ تقریبا آٹھ مہینوں کے دوران چھتیس ہزار فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں جس میں تقریبا دس ہزار تک بچے بھی شامل ہیں۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے باہر بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے موسموں کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے اپنی تلخ راتیں اس امید کے ساتھ صبح کررہے ہیں کہ کل کا سورج اس مقدس سرزمین پر کہیں سے امن کا پیغام لے کر طلوع ہوگا لیکن پوری دنیا میں امن کے نام نہاد علمبردار لمبی تان کر سورہے ہیں۔ وہ نہ تو ان بلکتے بچوں کی آوازیں سن رہے ہیں اور نہ ہی خون میں لت پت نہتے فلسطینیوں کی تڑپتی لاشیں دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو کہ وہ نہ تو عالمی اداروں کو خاطر میں لارہے ہیں اور نہ ہی جنگ بندی کیلئے دنیا کے سربراہان کی اپیلوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ طاقتور قومیں ہمیشہ کمزور قوموں کا گلہ گھونٹی رہی ہیں لیکن سوال تو اپنے آپ سے بھی بنتا ہے کہ ہم دنیا سے کیا گلہ کریں اور کیونکر کریں۔ ہم اپنی بے بسی کا رونا روئیں یا حکمرانوں کی بے حسی کا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی فرد، گروہ یا سیاسی و مذہبی تنظیم کا مسلہ نہیں بلکہ پوری قوم اور امت مسلمہ کا مشترکہ مسلہ ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام کے جذبات سے نہ کھیلیں بلکہ ان کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیئے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے ارشادات کی روشنی میں دینی اورملی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسلئے کے منصفانہ حل کیلئے عالمی سطح پر اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کردیں۔ ساتھ ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس مسلئے پر سیاست نہ کریں اور امت مسلمہ کی حیثیت سے متحد ہوکر اسرائیل پر دباو ڈالیں کہ وہ فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کا سلسلہ فورا بند کریں۔
عوام کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہر ممکن مالی اور اخلاقی تعاون جاری رکھیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم انکو اپنی دعاوں میں ضرور یاد رکھیں۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن