شفافیت پرمصلحت کو غالب آنے نہ دیا جائے

خیبرپختونخوا حکومت نے کابینہ میں شمولیت سے محروم رہ جانے والے ناراض ارکان اسمبلی کو پارلیمانی سیکرٹری ، ڈیڈک چیئرمین اور اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق خیبرپختونخوا میں حکومتی جماعت نے کابینہ کا حصہ بننے سے محروم رہ جانے والے ارکان اسمبلی کو نوازنے کا فیصلہ کیاگیا ہے کہا جارہا ہے کہ بعض ارکان اسمبلی نے کابینہ میں شمولیت سے رہ جانے کے بعد پارلیمانی سیکرٹری اور قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ مانگ لی ہے ساتھ ہی ساتھمحکمہ صحت نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونیرکے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کااضافی چارج218کلومیٹر دور کولائی پالس کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کو حوالے کردیاگیا ہے۔دریںاثناء صوبائی حکومت نے پراجیکٹ پالیسی کے متضاد فیصلہ کرتے ہوئے سول سرونٹ کو پراجیکٹ پوسٹ پر ڈیپوٹیشن بنیادوں پر تعینات کردیا ہے جبکہ مذکورہ ملازم کو ایک اور پراجیکٹ کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا ہے۔اسی طرح ہائوسنگ کے شعبے میں پی ایچ اے میں ایک ٹیکنیکل عہدے پر غیر متعلقہ افسر کی تعیناتی ہوئی ہے ڈیپوٹیشن کے حوالے سے واضح پالیسی ہے کہ سول سرونٹس کسی صورت ڈیپوٹیشن بنیادوں پر تعینات نہیں کئے جا سکتے تاہم اگر وہ کسی اور ڈیپوٹیشن سے واپس آکر چار سال تک کام کریں پھر ان کی تعیناتی ہوسکے گی یا پھر پروبیشن کے بعد ان کی تعیناتی کی جا سکی گی واضح رہے کہ محولہ افسر عرصہ دراز سے محکمہ کھیل میں ڈیپوٹیشن پر ہیں اور ایک اور ڈیپوٹیشن انہیں دے دی گئی ہے ۔ایک ہی دن کے اخبارات میں تین مختلف شعبوں کے حوالے سے جو تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں وہ کسی طور بھی صوبے میں اچھی حکمرانی شفافیت اور میرٹ کی حکومتی پالیسی کے مطابق نہیں بلکہ اس کی سراسر خلاف ورزی ہے جسے نوازنے کی پالیسی قرار دینے کی تو پوری گنجائش ہے مگر اس کی کوئی توجیہہ نہیں ہو سکتی اس طرح کی تعیناتیوں کے پس پردہ عوامل اور مفادات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں اس طرح کی تعیناتیوں اور کھپانے کاعمل صوبے میں عوامی مسائل کے حل اور حکومتی نیک نامی کے لئے کوئی نیک شگون نہیں یکے بعد دیگرے اگر اس طرح کے معاملات سامنے آنے لگیں تو اس طرح کے فیصلوں کا دفاع ممکن نہیں ہو سکے گا اور اس بارے حزب ا ختلاف جو رائے دے گی عوام میں اس کی پذیرائی فطری امر ہوگا بہتر ہوگا کہ ناگزیر ہونے کے استثنیٰ کے ساتھ صوبے میں میرٹ کاپورا پورا خیال رکھا جائے اور ایسے فیصلے اور تعیناتیاں کی جائیں جو نوازنے اور خوش کرنے کے حامل نہ ہوں بلکہ قوانین کے مطابق اور عوامی مفاد میں ناگزیر ہوں۔

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں