ریگی ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کس سے انصاف مانگیں

پشاور شہر ہزاروں برس قدیم ہے ۔پاکستان بننے کے بعد شہر فصیل شہر سے باہر بھی آباد ہونا شروع ہوا جس کا سلسلہ مسلسل بڑھتا گیا ۔ گل بہار ، ڈیفنس، حیات آباد اور اطراف میں شہر کی ایک بڑی آبادی رہائشی سہولیات حاصل کرتی گئی ۔ نوے کی دہائی کے شروع میں لوکل گورنمنٹ اور پشاور ڈویلپمنٹ اٹھارٹی یعنی پی ڈی اے نے پشاور کے شہریوں اور سرکاری ملازمین کے لیے ریگی ماڈل ٹاؤن کے نام سے ایک نیا رہائشی منصوبہ تیار کیا جس کے پانچ زون بنائے گئے ۔ سرکاری ملازمین بشمول پولیس، یونیورسٹی ملازمین ، پولیس کے شہدا کے خاندانوں کے لیے پلاٹس کے لیے قرعہ اندازی کی گئی جس میں ہزاروں لوگوں کو پلاٹ آلاٹ کیے گئے ۔ جب یہ ہاوسنگ سکیم شروع کی گئی تھی تو اس کے پلاٹوں کی قیمت اس زمانے میں قرب و جوار میں ملنے والے رہائشی پلاٹوں کے مقابلے میں دوگنی سے بھی زیادہ تھی ۔ لیکن چونکہ یہ حکومتی سرپرستی میں ہاوسنگ سکیم تھی اس لیے ملازمین نے قرض لے کر کمیٹیاں ڈال کر اپنی بنیادی ضروریات سے پیسیے بچا کر ، کچھ نے گاؤں اور شہر میں اپنی زمین بیچ کر اس میں پلاٹ خریدے اور مسلسل کئی برسوں تک پیٹ کاٹ کاٹ کر اس کی قسطیں جمع کروائیں اس امید پر کہ چند برسوں میں وہ اپنے ذاتی گھر میں سکونت اختیار کریں گے ۔ سرکاری ملازمین خصوصاً اساتذہ کے پاس زندگی میں ایک ذاتی گھر بنانے کے علاوہ کوئی اور بڑا منصوبہ نہیں ہوتا ۔مگر جن زونز میں سرکاری ملازمین ، یونیورسٹی کے اساتذہ اور محکمہ پولیس کے شہدا کے پلاٹ تھے ،یعنی زون 1,2اور5میں جہاں سترہ ہزار غریب پاکستانیوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی حکومت کے حوالے کی تھی ۔ ان زونز پر تین دہائیوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ یہ زمین کس کی ہے ۔ اس عرصہ میں پشاور میں کئی دوسری جگہوں پر ہاوسنگ سکیم شروع ہوئے ،لوگوں نے ان میں گھر تعمیر کیے اور کئی دہائیوں سے وہاں رہائش پذیر ہیں ۔ یہ فراڈ غالباً بحریہ ٹاؤن اور دوسری ہاوسنگ سوسائٹیوں نے پی ڈی اے سے سیکھا کہ زمین نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں غربیوںکی ساری زندگی کی جمع پونجی ان سے ہتھیا لو اور وہ اس ملک میں جہاں انصاف ملنے کی توقع اب کسی کو نہیں ہے ان کو ذلیل کرتے رہو۔ کسی حکومت نے ، کسی عدالت نے پی ڈی اے سے یہ نہیں پوچھا کہ جب اس نے زمین خریدی نہیں ہے اور اس کا قبضہ لیا نہیں ہے تو کیسے سترہ ہزار لوگوں سے ایڈوانس میں ساری پیسے لے سکتے ہو۔ کمال اس پر یہ ہے کہ پی ڈی اے فائلوں کی خرید و فروخت پر مسلسل اپنا حصہ وصول کرتی ہے ۔ان پلاٹوں کی ٹرانسفر فیس اور دیگر ٹیکس مسلسل وصول کررہی ہے ۔اس ملک میں پلاٹوں کے فائل بکتے ہیں ۔ایسا پوری دنیا میں نہیں ہوتا ۔ کچھ عرصہ پہلے بحریہ ٹاؤن نے پشاور میں صرف فارم بیچ کر اربوں روپے لوگوں سے لیے ہیں جبکہ ان کے پاس ایک انچ کی بھی زمین نہیں ہے ۔ اس ملک میں صاحب اقتدار اور اختیار جتنے بھی ہیں ان کی بے حسی دیکھیں کہ ریگی ماڈل ٹاؤن میں سات سو سے زیادہ پولیس کے شہدا کے پلاٹ بھی ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کردی ہیں ان کے بچوں کو سرچھپانے کے لیے جو پلاٹ دئیے گئے ہیں وہ صرف کاغذوں پر ہیں اور حکومت ، پی ڈی اے اور عدالت کو ان کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ۔ یہ سترہ ہزار لوگ اگر اس دور میں اتنے پیسوں سے قرب جوار میں کوئی جگہ لے کر گھر بناتے تو آج وہ گھر اتنی مالیت کا ہوتا کہ وہ اسے بیچ کر اسلام آباد کے کسی بھی اچھے سیکٹر میں گھر خرید سکتے تھے ، مگر ایسے ہزاروں لوگ جو اپنے ادا شدہ رقم کے عوض اپنے گھر کا خواب دل میں لے کر مرگئے ، وہ نوے فیصد ملازمین جنہوں نے ریگی ماڈل ٹاؤن میں پلاٹ لیا تھا وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور روزانہ پی ڈی اے کے دفتر میں خوار ہو رہے ہیں ۔ ان متاثر ین نے درجنوں پریس کانفرسز کیے ، اخبارات میں صدر ، وزیر اعظم ، چیف جسٹس، وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈرپشاور ,نیب ،کے نام اشتہارت شائع کیے کہ ان کی مدد کی جائے ۔ مگر ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے ۔ یہ مسئلہ کئی بار اسمبلی کے فلور پر اٹھایا گیا مگر نشستن گفتن برخاستن کے علاوہ ان کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ پی ڈی اے میں اختیار رکھنے والوں کی زندگی چیک کی جائے تو ان تین دہائیوں میں وہ سب ارب پتی ہیں ایک سے زیادہ گھر وں کے مالک ہیں ۔ لیکن ان کو پڑھانے والے اساتذہ اور ان کی حفاظت میں جان دینے والے پولیس کے شہدا کے بچے گھر کے ارمان میں ایک ایک کرکے مررہے ہیں ۔ ان سترہ ہزار لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی پی ڈی اے کو دی ہے ۔اب اپنے حق کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ سپر یم کورٹ نے کراچی میں برسوں سے کراچی کے چند سو افراد کے حقوق کے لیے از خود نوٹس لیے اور ان کے مسائل کراچی میں بیٹھ کر حل کیے ہیں ۔ لیکن پشاور کے سترہ ہزار لوگ یا پھر سترہ ہزار خاندانوں کو انصاف دینے کے لیے عدالت عالیہ و عظمیٰ نے ایک اپنا کردار ادا نہیں کیا ۔ یہ مثالی انصاف فراہم کرنے کے لیے ایک سیدھا سادہ کیس ہے ۔ مگر اس ملک میں غربیوں کی جمع پونجی لوٹنے کی کھلی اجازت ہے ۔ جو ان کو لوٹ لیتا ہے اسے کو ئی روکنے والا نہیں ہے ۔ پورے ملک میں شخصی سطح پر اور خیبر پختونخوا میں حکومتی سطح پر ایسا ہورہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سترہ ہزار خاندان کس کے پاس جائیں ، کس سے شکایت کریں ، کس سے انصاف مانگیں ، کس سے داد رسی چاہیں ۔ انتظامیہ ، حکومت ، عدالت ، اسمبلی سب کی منتیں ہوچکیں کوئی بھی اپنا کردار ادا نہیں کررہا ہے ۔ ریگی ماڈل ٹاؤن کے ان تین زونز میں جتنے آلاٹی ہیں وہ ایک ایک کرکے مررہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ کی تیسری نسل گھر کے ارمان اور انتظار میں ہے ۔اگر حکومت ان کو زمین نہیں دے سکتی تو مارکیٹ ریٹ سے ا ن کو ادائیگی کردے ۔ یہ سارے لوگ ایک برس سے بھی کم عرصہ میں جدید ترین سہولیات سے مزین ہاوسنگ سکیم جو دس قدم کے فاصلے پر ہے یعنی ڈی ایچ اے میں ان پیسوں سے پلاٹ لے کر گھر بنا لیں گے ۔ ویسے بھی ریگی کے ان زونز میں روز بروز لوگ قبضہ کرتے جارہے ہیں ۔کبھی مراعات و اختیار لینے والوں کو فرصت ہو تو وہاں جاکر نظارہ کرلیں ۔

مزید پڑھیں:  دو ملائوں میں مرغی حرام