آلوچے، آڑو کے باغات اور آلودگی

دنیابھر میں شہر بڑھتے بڑھتے جنگلات، باغات اور کھیتوں کو کھاجاتے ہیں اور ان میں بھی آبادکاری ہورہی ہوتی ہے پاکستان بھی چونکہ ساری دنیا کی طرح اسی منصوبہ کی تقلید کرتے ہوئے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروںمیں بھی بنیادی شہر کی فصیلوں اور دروازوں سے باہر نکل کر اس سے ملحقہ کھیت و کھلیان کو ختم کرکے نئی نئی ٹائون شپ بناکر لوگوں کے چھوٹے اور تنگ گھروں کی نسبت بڑے اور کھلے گھر تو دئیے جارہے ہیں تاہم ماحول کو گرم سے مزید گرم ترکرنے میں لگاہواہے۔ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے اسی تناسب سے کھیت کھلیان اور باغات ختم ہورہے ہیں آبادی بڑھنے سے آلودگی میں اضافہ ہورہاہے اور ماحول گرم ہورہا اور اس آلودگی کو ختم کرنے کا قدرتی زریعہ کھیت کھلیان ، باغات اور زیادہ سے زیادہ درخت ہیں اور آبادی ان سب قدرتی حفاظتی بند کو ختم کرکے انسانوں کیلئے زندگی اجیرن کررہی ہے۔ میرے ملک کے سادہ لوح لوگ اس قدرتی سہولت کو چھوڑکر بجلی کے زریعے ماحول کو ٹھنڈاکرنے کی طرف مڑگئے ہیں اور ہر وقت حکومت کو کوسنے میں مصروف رہتے ہیں جبکہ اس روز بروز کی لوڈشیڈنگ کا حل بھی یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو پھر کم ازکم جو پہلے سے موجود باغات، کھیت کھلیان اور جنگل ہیں ان کو ختم کرنے کے درپے تو نہ ہوں۔
اقوام متحدہ ماحول کی حفاظت کے لئے باقاعدہ طور پراس پر کام کررہاہے اور ہر سال ماحولیات کا دن منایا جاتاہے اور ہر سال ایک نیا خیالیہ (تھیم) دیاجاتا ہے۔ 2024ء کا خیالیہ یہ ہے کہ زمین کی بحالی اور اسی طرح جنگلات کو مسلسل کاٹنے سے اس زمین کے صحراہونے کے اندیشہ کو ختم کرنے پر کام کرناہے۔ اقوام متحدہ تو اپنا کام کررہاہے اور کرتارہے گا ہمارے وطن پاکستان میں بھی اسی طرح کے حالات ہیں اور ان حالات سے نبٹنے کیلئے ہمیں بحیثیت قوم اور بحیثیت ایک فر ض شناس پاکستانی اپنا فرض نبھانا ہوگا۔ ہر پاکستانی کو چاہے وہ ٹائون بنانے والے ہیں یا ان میں رہنے کے شوقین ہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ماحول بھی تباہ نہ ہو ۔ موجودہ شہر کے بالکل ساتھ میں نیاٹائون بنانا ہے تو پھر نزدیک ترین علاقہ میں زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگا کے اس کا ازالہ بھی کرناہے۔ ہر ایک پاکستانی کو دامے درمے سخنے کام کرناہے میں چونکہ قلم کے ذریعے اپنا حصہ ڈال رہاہے لہٰذ ااس موضوع پر باقاعدہ سے لکھ رہاہوں۔ میں انہی سطور پر سیاسی سماجی موضوعات پر لکھتاہوں وہیں پر ایک خاص تناسب سے ماحول پر بھی لکھنا فرض سمجھتاہوں اور یہ امید بھی لگائے بیٹھا ہوں کہ میرے کالم پڑھنے والے اور مشرق اخبارکا ہر ایک قاری ہمارے اس کارخیر میں حصہ لے کر اچھے شہری ہونے کا ثبوت دے رہاہے۔ میں اپنے صوبہ بالعموم اور اپنے شہر پشاور کے ماحول پر بالخصوص کام کررہا ہوں جہاں شہر کے لوگوں کو ماحول کو آلودہ کرنے سے منع کررہاہوں وہیں پر انہیں ماحول دوست بنانے کی تلقین بھی کررہاہوں۔ میراہر ایک قاری ماشاء اللہ سمجھدار ہے اور اچھی طرح جانتاہے کہ پشاور دن بہ دن پھیلتا جارہا ہے پھولوں اور باغات کا شہر اب آبادی کا شہر بن چکا ہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا پھولوں کے باغات تو نا پید ہوچکے ہیں اور اب پھلوں کے باغات کی باری ہے انہیں بھی کاٹ کر نئے ٹائون بنانے کے منصوبہ بن رہے ہیں۔
میری قارئین کی اکثریت کے علم میں ہے کہ پشاور کے مضافات میں جی ٹی روڈ کے دونوں طرف اور اب موٹروے کے اطراف میں آڑو، خوبانی اور آلوچے کے وسیع وعریض باغات ہیں اور ان باغات سے پورے ملک کے ساتھ ساتھ پشاور کو بھی میٹھے، خوشبودار، خوبصورت اور غذائیت سے بھرپور پھل مل رہے ہیں لیکن پشاور کی آبادی مسلسل بڑھنے اور نئے اور کھلے گھروں کے شوقین ان باغات کو درپے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ باغبانی کرنے والے لوگوں کو اس طرف مائل و قائل کیا جارہا ہے کہ باغات کی دیکھ بھال پر خرچہ زیادہ ہے جبکہ پیداورکم ہونے کی وجہ سے ان کی آئندہ نسلیں مشکلات کا شکار ہوں گی لہٰذا وہ باغات لگانا چھوڑدیں بلکہ اپنی یہ کوڑیوں کی زمین ٹائون مافیہ کے ہاتھوں بیچ کر اپنی آئندہ نسل کو بہترین مستقبل دے سکتے ہیں ۔ یہ ایک چھپا ہوا ہتھیار ہے ، دیمک کی طرح آہستہ اور اندر اندر سے کام کررہاہے میں چند ایک باغبانوں سے ملا ہوں اور ان میں سے اکثریت تو اس کے خلاف ہے لیکن چند ایک قائل بھی ہوچکے ہیں۔ میں ہر ایک باغبان سے تو نہیں مل سکتاتاہم چند ایک سے ملنا میرافرض تھا اور میں اپنا فرض نبھارہاہوںان کو سمجھارہاہوں کہ خدارااپنے باغات کی حفاظت کرکے نہ صرف اپنی آنے والی نسلوں بلکہ پورے صوبہ اور پاکستان کی عظیم الشان خدمت کریں۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ ماحول دوست بنیں اور پشاور کو ہر قسم کی آلودگی سے بچائیں۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟