اردو میڈیم یا انگریزی میڈیم ؟

اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہماری معاشرتی ،ثقافتی،تاریخی اور مذہبی روایات کی امین ہے اور بین الاقوامی طور پر بولی جانے والی زبانوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔اس کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر طرح کی زبان کے الفاظ اس میں آسانی سے سما سکتے ہیں اور اسی زبان کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں اور اب یہ بحث بھی ختم ہو چکی ہے کہ قومی زبان اردو کا دامن جدید علوم کی اصطلاحات کی ترجمانی سے خالی ہے۔قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد تدریسی تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اردو زبان جدید سائنسی اور فنی علوم کی تدریس و تعلیم کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔
پہلی تعلیمی پالیسی سے لیکر آج تک جتنی بھی تعلیمی پالیسیاں تشکیل دی گئی ہیں ان میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کیا گیا ہے اور اسے نافذ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔سپریم کورٹ ستمبر 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم بنچ میں اردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے تاریخی فیصلہ دے چکی ہے۔جس میں آئندہ مقابلے کے امتحانات ،بطور دفتری زبان ،سرکاری اجلاسوں کی کارروائیاں اردو زبان میں رواج دینے کا حکم دیا گیا تھا ۔
مگر ہنوز ہمارا ذریعہ تعلیم،دفتری معاملات اور سرکاری سطح پر اجلاسوں کی کارروائیاں اردو زبان کیلئے معمہ بنی ہوئی ہیں۔ہمارے تعلیمی اداروں سے ایسے لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو گئی ہیں وہ تحقیق اور تلاش و جستجو سے عاری ہیں،وہ کلرک اور منشی کا کردار تو ادا کر سکتے ہیں لیکن آج کل کی جدید دنیا انٹر نیٹ، ڈیٹا سائنس،آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور نت نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنا اور اس طرز کے آلات کی تخلیق،تعبیر و تعمیر ان کیلئے ممکن نہیں۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں دوہرا بلکہ تہر ا نظام تعلیم رکھتے ہیں جس کو طبقاتی نظام تعلیم کہنا زیادہ مناسب ہے ۔
نظام تعلیم ہی کسی قوم کے لئے نشان راہ اور منزل کا تعین کرتا ہے۔جن میں مقاصد کو سامنے رکھ کر شعور و آگہی کی منزل حاصل کی جاتی ہے اور پھر کسی بھی نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور یہ ذریعہ تعلیم ہی ہوتا ہے جو قوموں کا ان کے ماضی سے رابطہ قائم رکھتا ہے ان کے ثقافتی،مذہبی،معاشرتی معاملات کا احاطہ کرتا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا احساس دلاتا ہے ۔
اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں وہی قومیں سرفراز ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو اہمیت دی اور اسے ہی اپنی شناخت کا ذریعہ بنایا،انہوں نے تحریرو تقریر،تخلیق و تعمیر کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا ۔ دوسری جنگ عظیم میں جب امریکہ نے ہنستے،بنستے اور مسکراتے شہروں پر آتش و آہن کی بارش کی اور جاپان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا یوں وہ اغیار کے زیر نگیں آگیا۔ شہنشاہ جاپان نے اغیار سے صرف ایک گزارش کی کہ ھماری زبان کو نہ چھیڑا جائے اور تعلیمی اداروں میں اسے برقرار رکھا جائے۔ یہی زبان تھی جس نے جاپانی قوم کو اس کے ماضی سے جوڑے رکھا اس کی شناخت کو گم نہ ہونے دیا اور اسے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں دوبارہ لا کھڑا کیا ۔
چین،روس،فرانس اور امریکہ کی مثال لیجئے جنہوں نے اپنی اپنی قومی زبانوں کو فوقیت دی انہیں ذریعہ تعلیم بنایا انہی میں تحقیق و جستجو اور ترویج و اشاعت جاری رکھی آج وہ دنیائے زندگی کے ہر شعبے میں امامت و سیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔خود انگریزی ہی کو دیکھ لیجئے یہ جن لوگوں کی زبان ہے انہوں نے اسے فوقیت دی اسے رواج دیا،دنیا کے مختلف علوم اور زبانیں سیکھ کر ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا اسے وسعت عطا کی اور اسے ہمہ جہت بنایا۔آج کے دور میں وہ بین الاقوامی رابطے کی واحد زبان ہے۔
آج کے ماحول اردو سے پاکستانی قوم کی محبت کا عالم یہ کہ حکومتی و معاشرتی سطح پر اردو کو بطور زبان ترجیح نہ ملنے کی وجہ سے طلبہ اردو سمیت اردو میں لکھی ہوئی سوشل سائنسز کی کتب ،سوشل سٹڈیز ،شہریت میں دلچسپی لینے،انہیں وقت دینے،ان سے متعلق لٹریچر پڑھنے کو کم اہمیت دیتے ہیں،سالانہ امتحانی نتائج میں اردو کے مضمون میں کمزوری واضح نظر آتی ہے ،سوشل میڈیا کے استعمال میں اردو لکھنا مشکل سرگرمی تصور کیا جاتا ہے ، اردو رسم الخط کے بجائے اردو رومن کا رواج عام ہو گیا ہے۔ایسے میں خدشہ ہے کہ اردو رسم الخط کا حال ترکی رسم الخط کی طرح نہ ہو جائے ۔ واضح رہے کہ ترکی زبان بولنے والے ترک زبان کو رومن ترکی میں لکھنے کا رواج دیکر آج ترک زبان کے رسم الخط کو معدوم کرچکے ہیں ۔
جس زبان کا رسم الخط نہ رہے اس کے دامن میں علم و ادب کا بیش بہا سرمایہ ضائع ہو جاتا ھے ۔آج ترک اس بات پر ملال کا اظہار کرتے ہیں
ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں بیک وقت اردو ، انگریزی ، عربی اور متعدد علاقائی زبانیں ہمارے تعلیمی نظام کو آگے بڑھا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کسی بھی زبان میں مہارت حاصل نہیں ہو رہی۔ میٹرک کی سطح پر تو اردو کے ساتھ چلا جاسکتا ہے لیکن اس سے آگے اردو میں مختلف شعبوں میں حکومت کی سرپرستی و دلچسپی نہ ہونے علاوہ ازیں اس میں تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے لٹریچر دستیاب نہیں ہے جس وجہ سے انگریزی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب انگریزی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہماری third language ہے،جب تک زبان کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل نہ ہو،نہ آپ کسی کی بات سمجھ سکتے ہیں نہ اس کو اپنی زبان سمجھا سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں تحقیق کی کاوش کو بروئے کار لا سکتے ہیں لہذا جب تحقیق نہیں ہوگی تو تخلیق نہ ابھر سکے گی اور نہ پنپ سکے گی نتیجتاً دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھا جا سکے گا اور نہ ہی پیش رفت کی جاسکے گی اور ترقی کی دوڑ میں ترقی یافتہ اقوام کی اقتدا پر وہ قوم اپنے آپ کو مجبور پائے گی۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم نے دور جدید کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو ہمیں اپنی قومی زبان اردو کو مکمل طور پر اختیار کرنا ہوگا، حکومت و دیگر سٹیک ہولڈرز کو صحیح معنوں میں دلچسپی لیتے ہوئے اس کے نفاذ اور ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے اور ہمارے وہ تمام دانشور ،محقق،صاحبان علم جو دنیا کے مختلف علوم پر دسترس و تخصیص رکھتے ہیں انہیں اپنی مساعی جمیلہ سے اردو میں ان علوم کو منتقل کرناہوگا اور سرکاری سطح پر سختی سے عملدرآمد کرانا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟