وہ اپنی خو ْ نہ چھوڑیں گے،،،،،

گزشتہ کئی ماہ سے( اگر گزشتہ برسوں کے الفاظ کی تکرار سے اقرار بھی کیا جائے ) بجلی کے بلوں کے مسئلے پر سرکار کا رویہ عوام پر مسلسل دباؤ ،زیادتی بلکہ مبینہ طور پر ظلم جیسا ہے تو عوام بھی مسلسل فریاد کر کے اپنی مشکلات کی نشاندہی سے باز نہیں آرہے ہیں ،اور سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈز چل رہے ہیں ان کے رد عمل کے طور پر حکومتی حلقے بھی بڑی حد تک متفق ہونے کے باوجود بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر بجلی بلوں میں ہر ماہ اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی کے بنیادی نرخوں میں اضافے کے بعد نیاٹیرف جاری کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پیسکو کے صارفین کو آئندہ ماہ کئی ہزار روپے اضافی اخراجات کے ساتھ بھاری بل موصول ہونے کے امکانات ہیں، نئے ٹیرف کے مطابق 300 ماہانہ یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا کم سے کم بل 15ہزار283 روپے اور 400 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کا بل 22ہزار838روپے، 500 یونٹ والے صارفین کو 30ہزار202روپے، 600 یونٹ کے عوض37ہزار388 جبکہ 700 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو 44ہزار557 روپے متوقع ہوگا۔ علی ٰہذ القیاس جبکہ ان بلوں میں جو مختلف ٹیکسز شامل ہوں گے ان سے بلوں کی مالیت مزید بڑھے گی، علاوہ ازیں ایک اطلاع کے مطابق نان فائلرز کے بجلی بلوں میں ایک اور ٹیکس کا اضافہ کرنے کی تیاری ہو چکی ہے، اور ان پر ایڈوانس ٹیکس لاگو کیا جا رہا ہے، دوسری جانب حالیہ مہینوں میں بجلی صارفین سے اربوں روپے اوور بلنگ کے طور پر وصول کئے جا چکے ہیں، ابھی گزشتہ روز ہی نیپرا کی جانب سے تقریباً 7 روپے سے بھی زیادہ کے اضافے کی منظوری دی گئی ،جس سے صورتحال کہاں پہنچے گی، بلکہ یہ تو ہر مہینے کا معمول ہے اور اگلے ماہ ،اس سے بھی اگلے ماہ بجلی یونٹ قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے عام غریب آدمی کا کچومر نکل جائے گا اور صورتحال اس وقت بھی یہ ہے کہ غریب تو ایک طرف متوسط طبقے سے بھی یہ مسلسل اضافہ کسی طور برداشت نہیں ہو رہا، اوپر مختلف ہندسوں کے مطابق یونٹ استعمال کرنے والوں پر جو اضافی ( مختلف النوع) قسم کے ٹیکسوں کی بھرمار سے بلوں کی مالیت میں ناقابل برداشت حد تک اضافے سے عوام کو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم کرنے میں بھی شدید مشکلات درپیش ہیں ،اس لیئے اگر ان کالموں میں ہر چند روز کے بعد عوام کی فریاد کو سامنے لایا جاتا ہے تو اس سے وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے کے رد عمل کے تحت ” ہم اپنی وضع کیوں بدلیں” سے ہی تشبیہ دی جا سکتی ہے، معاملہ بلوں کی مالیت میں سلیب سسٹم کے تحت صرف اضافے تک ہی محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس صریح زیادتی کا ہے جو ابتدائی سلیب میں صرف ایک یونٹ اضافے سے بلوں میں پانچ ہزار روپے کا” جرمانہ” عاید کرنے پر منتج ہوتا ہے اور جیسے ہی ہندسہ 200 یونٹ کو کراس کر کے 201 پر ٹکتا ہے تو یہ ایک اضافی یونٹ 5 ہزار روپے کا ہتھوڑا بن کر غریب صارفین کو اس زور سے لگتا ہے کہ ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں، اس حوالے سے گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک خبر نے اگرچہ بظاہر تو عوام کیلئے خوشخبری کی نوید سنا دی ہے یعنی لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ نے نیپرا کو چار ہفتوں کے اندر بجلی بلوں سے اضافی چارجز اور ٹیکس ختم کرنے کا حکم دیدیا ہے، تا ہم دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکم صرف متعلقہ ہائیکورٹ برانچ کے زیر اثر علاقوں پر ہی لاگو ہوگا یا پھر پورے ملک کے عوام کو اس سے ریلیف ملے گا ،نظر بہ ظاہر تو ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا یعنی اس حکم کا اطلاق صرف راولپنڈی ہائیکورٹ ہی کے دائرہ اختیار تک ہی محدود ہو سکتا ہے، اس لئے اس ضمن میں ہم ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کی توجہ دلاتے ہوئے ملتمس ہیں جو بیانات کی حد تک ایسے ٹیکسوں کو ” رد” کرنے کے بیانات کو بہت طمطراق سے دیتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھاتے یعنی وہ بھی اگر پشاور ہائیکورٹ سے محولہ فیصلے کی بنیاد پر رجوع کریں اور خاص طور پر ہمارے صوبے میں جو فیول ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ناموں سے بجلی بلوں میں ٹیکس لگا کر عوام کو عذاب سے دوچار کیا جا رہا ہے ،حالانکہ ہمارے صوبے میں استعمال ہونے والی بجلی پانی سے پیدا ہوتی ہے جس پر یہ مختلف النوع ٹیکس وصولی کا نہ کوئی آئینی اور قانونی جواز ہے، نہ اخلاقی’ اس لئے ان تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ صرف عوام کو لالی پاپ تھمانے کی حد تک بیان بازی تک ہی محدود نہ رہیں،بلکہ عدالت سے رجوع کر کے عوامی مفاد کا عملی مظاہرہ بھی کریں۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تبدیلی کے اثرات