قابل تقلید اقدام

سولر انرجی سے دنیا بھر میں استفادہ ایک عام سی بات ہے اور مختلف ممالک میں اس حوالے سے نہ صرف عوام کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ سولر انرجی سے پیدا ہونے والی بجلی سرکاری طور پر خرید کر عوام کو ادائیگی بھی ان سہولیات کا حصہ ہے ،پاکستان میں بھی اب تک اس حوالے سے یہ سہولیات خصوصاً پیک آوارزمیں اضافی بجلی عوام سے خریدنے کیلئے ان کے گھروں پر گرین میٹرز نصب کر کے” خرید و فروخت” کا یہ سلسلہ چلایا جاتا تھا مگر خدا جانے اب کیا ہوا کہ نہ صرف ان گرین میٹرز کی تنصیب کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے بلکہ اب سولر سسٹم کی تنصیب کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، بعض اطلاعات یہ ہیں کہ عوام کو اس مقصد سے روکنے کیلئے مبینہ طور پر ان آئی پی پیز کا دباؤ کام کر رہا ہے جو بجلی بنائے اور قومی گریڈ کو سپلائی کئے بغیر ہی حکومت سے اربوں روپے وصول کرتے ہیں اور اگر سولر سسٹم پر منتقل کرنے کی وجہ سے عوام کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ ریگولر بجلی سے بھی ان کو چھٹکارا ملے گا تو اس کے نتائج ان آئی پی پیز کے حق میں نہیں نکلیں گے، اس لئے اب بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے عوام کے سولر ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے عمل میں روڑے اٹکانا شروع کر دئیے ہیں، تاہم اس ضمن میں دو باتیں حوصلہ افزاء کے زمرے میں آتی ہیں، ایک تو یہ کہ ملک بھر میں زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے یقینا ان علاقوں میں جہاں زراعت کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے مگر بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے زراعت پر بھی اخراجات بڑھتے ہیں اور زرعی اجناس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور دوسرا حکومت پنجاب کی جانب سے عوام کو سولر پینلز کی تقسیم کیلئے 14 اگست سے آغاز کیا جا رہا ہے جبکہ صرف 10 فیصد معاوضہ کی ادائیگی پر بغیر سود قرضوں کی صورت میں سولر پینلز فراہم کئے جائیں گے، یقینا یہ ایک قابل تقلید اقدام ہے اور حکومت خیبر پختوخوا بھی اگر غریب عوام کو اسی نوع کے ایک منصوبے سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرے تو بجلی چوری بھی ختم ہو جائے گی اور عوام کے مسائل بھی حل ہو سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  خانہ انوری کجا باشد؟