ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین

پاکستان کے تعلیمی نظام کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں اس دور میں والدین اور بچوں کو صرف ایک پروفیشن یعنی میڈیکل ڈاکٹر بنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ جبکہ اگر دیکھا جائے تو اس کے مقابلے میںدیگر شعبے زیادہ ضروری ہیں اور ان شعبو ں کے بغیر میڈیکل ڈاکٹر بھی کسی کام کے نہیں ہیں ۔ مگر جس قوم کے پاس بچوں کو صرف میڈیکل ڈاکٹر بنانے کا ایک واحد انتخاب ہو وہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے ۔ ہر برس لاکھوں بچے ڈاکٹر بننے کے لیے اس امتحان کی تیاری کرتے ہیں اور کچھ بچے تو ایف ایس سی کر نے کے بعد کئی برس اس کی تیاری میں ضائع کردیتے ہیں ۔اب یہ ایک کامیاب اور نہایت ہی فائدہ مند کاروبار بن چکا ہے ۔ بچوں کو اس امتحان کے لیے تیار کرنے کے لیے گلی کوچوں میں اکیڈیمیاں بن گئی ہیں جہاں بچوں سے لاکھوں روپے لیکر ان کو رٹا لگانے اور سابقہ پرچہ جات حل کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے ۔ لوگوں کے اس جنون کو دیکھ کر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی ایک بھر مار ہے جو سالانہ ان والدین سے چالیس ارب روپے سے زیادہ کماتے ہیں ۔ والدین اس پر بھی بس نہیںکرتے جب یہاں کام نہیں بنتا تو پھر اپنے بچوں کو چین ، کرغیزستان ، تاجکستان ، آذربائی جان ، قازقستان ، بیلا روس اور اس نوع کے دیگر ممالک بھیجتے ہیں جہاںنہ کوئی ان کی زبان سمجھتا ہے اور نہ ہمارے بچے ان ممالک کی زبان سمجھتے ہیں ۔ ان ممالک میں بھی ہمارے ہاں کے عیار سرمایہ کار گئے ہیں اور وہاں مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر میڈیکل کالجز کا دھندا چلا رہے ۔لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھواتے ہیں ۔ہمارے ملک میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹر ز بے روزگار ہیں ۔ اور صحت کے حوالے سے شاید ہی کوئی ملک دنیا میں ایسا بچا ہو جس سے ہم پیچھے نہ ہوں ۔ ملک میں صحت کی بحالی اور خدمات کے لیے یقیناً ڈاکٹروں کا ہونا ضروری ہے اور جتنے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے ان کے لیے سرکاری میڈیکل کالجوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے مگر میڈیکل کے تعلیم کے ساتھ جو کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔ ہمارا نظام تعلیم اتنا بوسیدہ ہو چکاہے کہ ہم سکولوں کے بچوں کو ان کے ذہنی و فطری رجحانات کے مطابق شعبوں میں جانے کے لیے راغب ہی نہیں کرتے اور نہ انہیں بتاتے ہیں کہ دنیا میںہزاروں شعبے ہیں جن میں جاکر بچے اپنا اچھا مستقبل بنا سکتے ہیں اور ان کی خدمات سے ملک و قوم کا بھلا ہوسکتا ہے ۔ حکومت کی منصوبہ بندی اور انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انجینئرنگ کا شعبہ تو تقریباً ختم ہوہی چکا ہے ۔ اسی فیصد سے زیادہ انجینئرز اس وقت بے روز گار ہیں ۔ حالانکہ ملک کی تعمیر و ترقی میں جتنا اہم شعبہ انجینئرنگ کا ہے اتنا کوئی دوسرا شعبہ نہیں ہے ۔چین کوریا اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں انجینئرنگ کے سہارے ہی ترقی کررہی ہیں ۔ہم بچوں کو آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کی تعلیم کی طرف راغب نہیں کررہے جس کی بنیاد پر مستقبل کی دنیا چلے گی ۔ ہم فوڈ سائنسز کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے جس کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے ۔دنیا اب مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کی طرف گامزن ہے ۔ چین نے مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس کا ایک مکمل ہسپتال انسانوں کی مدد کے بغیر شروع کردیا ہے ۔ میڈیکل سائنسز بھی ایک نہیں سینکڑوں ہیں لیکن لوگ اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں ۔ میڈیکل سائنسز کے دوسرے شعبوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے ۔ ایم ڈی کیٹ کا رزلٹ اٹھا کر دیکھ لیں اس میں پاس ہونے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا ۔ ہم کب اپنا نظام تعلیم بدلیں گے ، ہمیں آخر کب احساس ہوگا کہ دنیا بہت آگے جا چکی ہے ۔ دنیا کے تقاضے اور ضروریات بدل گئی ہیں ۔ لارڈ میکالے کے اس نظام میں صرف بابواور رٹے والے ڈاکٹر ہی پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اس نظام میں آپ ڈیم بنائیں آپ کو کوئی بندہ ملک میں ایسا نہیں ملے گا جو وہاںکسی کام کی منصوبہ بندی اور نگرانی کرسکے۔ بجلی گھر بن جائیں تو ان کو چلانے کی صلاحیت کسی میں نہیں ہے ۔ زراعت کے حوالے سے بھی ہم عالمی تجربات پر تکیہ کیے ہوئے ہیں ۔گاڑیاں اس ملک میں کوئی نہیں بناتا ۔الیکٹرانکس کی کو ئی شے یہاں نہیں بنتی ۔ پھر ایسے نظام تعلیم کا اچار ڈالنا ہے جو صرف بے روزگار پیدا کرے اور سالانہ اس پر اربوں کا خرچہ بھی ہو۔ دنیا نے کتنی ترقی کی ہے اور ہم ایم ڈی کیٹ جیسا ٹسٹ جس میں طالب علم سے ہزاروں روپے فیس بھی لی جاتی ان کو میدانوں میں بٹھا کر ٹسٹ لیتے ہیں ۔ آئی ٹی کے اس دور میں جہاں دنیا سارے ٹسٹ آن لائن لیتی ہے جس پر خرچہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس میں شخصی مداخلت بھی ممکن نہیں ہے اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کررہے ۔ والدین کو عقل کا استعمال کرنا چاہئیے کہ اگر ان کا بچہ یا بچی کا فطری میلان ڈاکٹر بننے کا نہیں ہے تو انہیں زبردستی ڈاکٹر نہ بنائیں ان کو ان شعبوں میں لے کر جائیں جہاں ان کی دلچسپی ہے اور وہ اسے بہتر انداز میں سیکھ سکتے ہیں اور پھر ساری زندگی اس میں حقیقی پیش رفت کرکے ترقی کرسکتے ہیں اور وہ بچے پھرہمارے ملک کو بھی دوسرے ممالک کے ہم پلہ لاسکیں گے ۔ لوگ اپنی بچیوں کو میڈیکل کی تعلیم دلوانے کے لیے مادر پدر آزاد ملکوں میں بھیجتے ہیں ۔ جہاں کوئی اخلاقیات رائج نہیں ہیں ۔ اور نہ وہاں تعلیم نام کی کوئی شے موجود ہے ۔ آپ ایجنٹوں اور پہلے سے ان ممالک میں موجود طالب علموںکی جھوٹی اور غیر حقیقی باتوں میں نہ آئیں اس لیے کہ ایجنٹوں اور ان طالب علموں کے لیے یہ پیسے کمانے کا ذریعہ ہے ۔ وہاں داخلے کے لیے طالب علم لانے پر ان کو کمیشن ملتا ہے ۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں جس سے ان کا مستقبل بہتر ہو ۔ اور جدید شعبوں میں تعلیم دلوانے کی کوشش کریں اس لیے دنیا تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے ۔ جو کچھ یہ بچے آج پڑھ رہے ہیں عین ممکن ہے کہ جب یہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں گے تو اس وقت تک معاشرے میں اس ڈگری کی ضرورت ہی باقی نہ رہے اور مارکیٹ میں اس کے لیے کوئی جاب ہی دستیاب نہ ہو تو پھر وہ کیا کریں گے ۔ اپنے بچوں کو ان اداروں میں تعلیم دلوائیں جہاں ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں ۔ اس لیے دنیا ڈگریوں سے زیادہ ہنر کو دیکھتی ہے اور قبول کرتی ہے ۔ اپنے بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے کے لیے ان کی کمپیوٹر اور اے آئی میں ابھی سے تربیت شروع کروادیں ۔ تاکہ جب وہ کسی دوسرے ملک جائیں تو وہاں نظام پر بوجھ نہ بنیں اور ان کو وہاںروزگار حاصل کرنے میں سہولت ہو ۔ آپ کے بچے اگر ڈاکٹر نہ بن سکیں تو کوئی بات نہیں ان کا تعلیمی سفر ختم نہ کریں ۔ انہیں کسی بھی دوسرے شعبے میں جانے کے لیے راغب کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ زندگی میں صرف ڈاکٹر ز ہی کامیاب نہیں ہوتے اور کروڑوں لوگ ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں تعلیم و تربیت حاصل کرکے خوشحال اور مطمئن زندگی گزررہے ہیں ۔ زیادہ بہتر ہے کہ ان کو وہ تعلیم دلوائیں جو انہیں انٹرپینور شپ کی طرف لے جائے اور بچے خود سے اپنی تعلیم کا استعمال کرکے کوئی ذاتی کام اور کاروبار شروع کرسکیں ۔ اس لیے کہ ایسا کرکے وہ اس انگریزی بابو سازی نظام سے نکل جائیں گے اور ترقی کریں گے ۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت