2 18

مشرقیات

عید کا دن تھا ۔ مدینہ منورہ میں ہرطرف چہل پہل تھی ، لوگ عمدہ لباس پہنے ، عید کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں تھے ، تاکہ گھر والوں کو عید کی مبارکباد دے سکیں ، لیکن ایک نوجوان ایسا بھی تھا ، جس کے قدم اپنے گھر کے بجائے کسی اور سمت میں اٹھ رہے تھے ۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ نوجوان اپنے گھروالوں سے خفا تھا یا اسے کسی دوست یا رشتہ دار سے ملنا تھا یا وہ کسی تفریح میں حصہ لینے جارہا تھا ، بلکہ وہ نوجوان ایک بہت بڑے عالم کے مکان پر جا کر رک گیا ۔ نوجوان نے دروازے پر دستک دی اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوگیا ۔ بہت بڑے عالم نے نوجوان سے پوچھا ۔
”تم نماز پڑ ھ کر گھر نہیں گئے ؟ ”
”نہیں !”
”کچھ کھالو !”
”جی نہیں ، اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ ”
”پھر کیا ارادہ ہے ؟”
”حدیث رسول ۖ بیان فرمایئے !”
بزرگ نے اس نوجوان کو کتاب لانے کا حکم دیا ۔ نوجوان کتاب نکال کر لایا ۔ بزرگ نے چالیس حدیثیں بیان کیں ، نوجوان نے کہا : ”اور فرمائیے ! ”
”یہی کافی ہیں ۔” بزرگ نے فرمایا ”اگر تم نے یہی حدیثیں یاد کر لیں تو تمہارا شمار حفاظ میں ہوگا ۔ ”
”میں نے یا د کر لیں !!” نوجوان نے انکشاف کیا ۔
بزرگ نے نوجوان کے ہاتھ سے کتاب لے لی اور فرمایا : ”بیان کرو”۔ نوجوان نے وہ تمام چالیس حدیثیں لفظ بہ لفظ بیان کر دیں ، جو ابھی چند لمحے قبل بزرگ نے اس کے سامنے بیان کی تھیں ۔ بزرگ کے لبوںکو جنبش ہوئی ، انہوں نے فرمایا : جائو ! تم علم حدیث کے زبردست فقیہہ ہو ۔ یہ نوجوان تھے حضرت مالک بن انس جو آگے چل کر امام مالک کہلائے ۔ اور بزرگ تھے امام ابن الشہاب الزہری جن سے علم کے حصول کے لئے مالک نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ نماز عید کے بعد گھر چلے جائیں ،خود امام مالک کے کہنے کے مطابق ” میں نے سوچا کہ آج ایسا دن ہے کہ امام ابن شہاب فارغ ہوں گے ، اس لئے ان کے پاس چلاگیا ۔ ”علم دین حاصل کرنے کے لئے یہ شوق و جستجو ، تڑپ اور لگن تھی ، جس نے امام مالک کو مسلمانوں کے فقہ کے چار بڑے اماموں میں سے ایک کے بلند مرتبہ پرفائز کیا ۔ آپ کی پوری زندگی ایک روشن مینار کی مانند ہے ،جس سے آنے والی نسلیں نور کی کرنیں لے کر اپنی سیر توں کو منور کر سکتی ہیں ۔ آپ کا نام مالک ، کنیت ابوعبداللہ اور لقب امام دارالہجر ة یعنی مدینہ کا امام ہے ۔ 93ھ 711/ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔ یہ بنی امیہ کی حکومت کے عروج کا زمانہ تھا ۔ ولید بن عبدالملک حکمران تھے اور اسلامی حکومت مشرق میںترکستان (چین ) کابل اور سندھ اور مغرب میں افریقہ اور سپین تک پھیل چکی تھی ۔ اسلامی حکومت کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ مملکت اسلامی میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا !!۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''