2 44

مشرقیات

حضرت عبداللہ بن خذافہ کی آزمائش حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے ملک روم کی طرف ایک لشکر بھیجا جس میں حضرت عبداللہ بن حذافہ نامی ایک صحابی بھی تھے ۔ ان کو رومیوں نے گرفتار کر لیا اور پھر ان کو اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے ( جس کا لقب طاغیہ تھا ) اور اسے بتا یا کہ یہ حضرت محمد ۖ کے صحابہ میں سے ہیں تو طاغیہ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سے کہا کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ تم (اسلام چھوڑ کر ) نصر انی بن جائو ۔ اور میں تمہیں اپنے ملک اور سلطنت میں شریک کر لوں ؟حضرت عبداللہ نے فرمایا اگر تم مجھے حضرت محمدۖ کے دین کو پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے چھوڑ نے پر اپنا سارا ملک بھی دے دو اور عربوں کا ملک بھی دے دو تو میں پھر بھی تیار نہیں ہوں ۔ تو طاغیہ نے کہا پھر تو میں تمہیں قتل کر دوں گا ۔
انہوں نے کہا تم جو چاہے کرو ، چنانچہ اس بادشاہ نے ایک دیگ منگوائی ، جس میں پانی ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی پھر اس نے دو مسلمان قیدی بلوائے اور ان میں سے ایک مسلمان کو (زندہ ہی ) اس کھولتی ہوئی دیگ میںڈال دیا گیا ( یہ خوفناک منظر حضرت عبداللہ کودکھا کر ) اس بادشاہ نے ان پر پھر نصر انیت کو پیش کیا ،لیکن انہوں نے پھر انکار کیا ۔ اب بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو (زندہ ) دیگ میں ڈال دیا جائے ، جب سپاہی ان کو (دیگ کی طرف ) لے جانے لگے تو یہ رو پڑ ے ۔وہ سمجھا کہ اب یہ (موت سے ) گھبرا گئے ہیں ، چنانچہ ان کوواپس لایا گیا ۔ اب بادشاہ نے پھر ان پر نصرانیت کو پیش کیا ۔ انہوں نے پھر انکار کیا ۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ اچھا تم کیوں رو رہے تھے ؟ انہوں نے فرمایا میں اس لیے رو یا تھا کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے اب اس دیگ میں ڈالا جائے گا اور میں ختم ہو جائوں گا ، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے جسم پر جتنے بال ہیں اتنی میرے پاس جانیں ہوں اورہرجان کو اللہ کے دین کی وجہ سے اس دیگ میں ڈالا جائے اس طاغیہ بادشاہ نے ( ان کے اس جواب سے متاثر ہو کر ) کہا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تم میرے سر کا بوسہ لے لو اور میں تمہیں چھوڑ دوں ؟ تو حضرت عبداللہ نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ باقی تمام مسلمان قیدیوں کو بھی چھوڑ دو گے ؟
بادشاہ نے کہا ہاں باقی تمام مسلمان قیدیوں کو بھی چھوڑ دوں گا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیںکہ میں نے اپنے دل میں کہا : یہ اللہ کے دشمنوں میں سے ایک دشمن ہے ۔ میں اس کا سر کا بوسہ لے لوں گا ۔
میرا دل تو اس کام کو نہیں چاہ رہا ہے ، لیکن میں مسلمانوں کے فائدہ کیلئے کر لیتا ہوں ) چنانچہ بادشا ہ کے قریب جا کر انہوں نے اس کے سر کا بوسہ لیا۔ بادشاہ نے سارے قیدی اس کے حوالے کر دیئے ۔ یہ ان سب کو لے کر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمر کو سارے حالات بتائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ کے سر کا بوسہ لے اور سب سے پہلے میں لیتا ہوں ، چنانچہ حضرت عمر نے کھڑے ہو کر ان کے سر کا بوسہ لیا ۔ (بیہقی )

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟