3 29

مفت خور پولیس، صحت کارڈ، سڑک اورپلے گرائونڈ

خیبر پختونخوا کی پولیس کو اصلاح شدہ قرار دیکر اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں مگر اصلاحات نے پولیس کا کچھ نہیں بگاڑا، ہزار سال بعد نلکی سے نکالو تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔ واٹس اپ پر ایک میسج تنگی چارسدہ کے ایک نوجوان کا ملا ہے جس میں ان کے بھائی کے قاتلوں کو پولیس چھ سالوں تک گرفتار کرنے سے لیت ولعل سے کام لیتی رہی، چھ سال بعد جب تھانہ مندنی پولیس نے چھاپہ مار کر قاتلوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو مبینہ طور پر علاقہ ایم پی اے جس کا تعلق حکمران جماعت پی ٹی آئی سے ہے آڑے آرہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس کو کارروائی ہی مطلوب نہیں اور علاقہ ایم پی اے کا دبائو ہونے کا محض حیلہ تراشا جارہا ہے۔ پولیس چاہے تو اپنے گھروں میں مقیم مفرور ملزمان کو گرفتار کرسکتی ہے۔ پولیس کی کارروائی قانون کے مطابق ہو تو دبائو میں کیوں آئے۔302، 326 تھانہ مندنی علت نمبر494پر پولیس اگر چھ سال بعد بھی کارروائی نہیں کرے گی تو کب کرے گی؟ یہ تو ایک رخ تھا، پولیس کا ایک اور رخ فیز6 حیات آباد سے ہمارے ایک قاری نے میسج کرکے بتایا ہے کہ تھانہ تاتارا کے موبائل وین کے ذریعے نواب مارکیٹ، بنگش مارکیٹ، ابراہیم مارکیٹ اور دیگر مارکیٹوں سے روزانہ کی بنیاد پر پولیس اہلکار براہ راست یا اپنے کارندوں کے ذریعے روٹی، چھولے، کباب، دودھ، دہی اور دکانداروں سے مختلف اشیاء وقتاً فوقتاً سمیٹتے ہیں۔ صرف تاتارا پولیس ہی نہیں بلکہ ہر تھانہ پولیس کا یہ حال ہے کہ وہ جیب سے کم ہی کھاتے ہیں، ان کو نان سے لیکر سبزی وپھل سبھی کچھ ایسے ہی مل جاتا ہے۔ جو دکاندار اور ٹھیلے والا انکار کرے ان کو کسی نہ کسی بہانے حوالات کی سیر کرانا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈر کے مارے ان کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے ہیں کہ ان کے شر سے بچ سکیں۔ حرام کی لت پڑ جائے تو لقمہ حلال کم ہی نصیب ہوتا ہے جو لوگ خدا سے نہیں ڈرتے ان کو کوئی آئی جی سے کیا ڈرائے، ان کو وزیراعلیٰ کی کیا پرواہ ہے، ایسا نہ ہوتا تو یوں سرعام لٹیرے نہ بنتے۔ ایس ایچ او تاتارا آج ہی تبدیل ہوئے ہیں، توقع ہے کہ نئے ایس ایچ او نہ صرف اپنے بھوکے کانسٹیبلوں کو پولیس کی گاڑی لیکر بھیک اکھٹی کرنے سے روکیں گے بلکہ ”گندہ گلی” کہلائے جانے والے مقامات پر دھندہ روکنے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ نوشتہ دیوار نظر بھی آتا ہے اور ٹھکانے معلوم بھی ہیں، عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے، ساری تفصیلات کالم میں آئیں تو اچھی بات نہ ہوگی۔ میں نے ہفتہ بعد اپنے قاری کو دوبارہ رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کرنے کا کہا ہے۔ آئی جی خیبرپختونخوا بھی براہ کرم نوٹس لیں تو عنایت ہوگی۔ لگتا ہے آج کا پورا کالم پولیس کی نذر ہوگا۔ محکمہ پولیس میں پیرا میڈیکس کی آسامی کیلئے ٹیسٹ وانٹرویو پاس کرنے والے ایک اُمیدوار نے شکایت کی ہے کہ بجائے اس کے کہ میرٹ پر تقرریاں ہوتیں، ان اسامیوں کو دوبارہ مشتہر کردیا گیاہے۔ ٹیسٹ وانٹرویو کی منسوخی کی کوئی حقیقی وجہ ہو تو اس سے اُمیدواروںکو آگاہ کرنا ضروری تھا، بصورت دیگر تقررناموں کا اجراء قانون کا تقاضا تھا، بہرحال اس حوالے سے وضاحت ہونی چاہئے۔
گزشتہ کسی کالم میں صحت سہولت کارڈ کے حامل دل کے مریض کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں تین سال بعد آپریشن کا وقت دینے کی شکایت چھپی تھی اب اسی ہسپتال کے آرتھوپیڈک کے شعبے کی جانب سے ایک مریض کو تین سال بعد آپریشن کی تاریخ دی گئی ہے، حکومت مفت علاج پر جو رقم خرچ کرتی ہے اگر اس کا عوام کو فائدہ نہ ملے اور سرجری کیلئے تین تین سال بعد کی تاریخیں ملنے لگیں تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور سرکاری خزانے سے رقم کا ضیاع الگ سے ہوگا۔ اس وقت صرف مستحقین کو ہی صحت کارڈ کی سہولت دی گئی ہے، پورے صوبے کے عوام کو جب صحت کارڈ دیئے جائیں تو شاید دس دس سال کی تاریخیں ملنی شروع ہو جائیں گی۔ وزیر صحت اس مسئلے پر غور کرسکیں اور مسئلے کا کوئی حل نکال سکیں تو بہتر ہوگا ورنہ رقم بھی ضائع، عوام بھی ناخوش، حکومت بھی بدنام اور فائدہ صرف انشورنس کمپنیاں لے جائیں گی۔
ڈھوڈا روڈ ڈھیری بانڈہ تین سال سے کھنڈر بن چکا ہے، عوام کو آمد ورفت میں سخت مشکلات کا سامنا ہے مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ یہ شکایت علاقے کے ہمارے ایک دیرینہ قاری نے اس اُمید پر کی ہے کہ شاید کسی کا نظر کرم ہو جائے اور سڑک کی تعمیر وبحالی ہوسکے۔
خیبرایجنسی سے طارق آفریدی کھیلوں کے میدان نہ ہونے کے باوجود علاقے سے کرکٹ کے نامور کھلاڑی سامنے آنے کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ یہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں مگر کھیلوں کے میدان اور سہولیات موجود نہیں۔ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کے مواقع نہیں ملتے تو وہ منفی رویئے اختیار کرتے ہیں۔ سابق صوبائی وزیرکھیل عاطف خان وزارت سے ہٹائے جانے تک وعدے ہی کرتے رہے مگر ایفا نہ ہوئے۔ صوبائی حکومت نوجوانوں کو کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی میں ویسے بھی دلچسپی رکھتی ہے، کھیل کے میدان بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، صوبائی حکومت علاقے کے نوجوانوں کا مطالبہ پورا کرنے کیلئے توجہ دے تو بہت بہتر ہوگا۔ اختتام پر ایک اور شکایت حیات آباد کے پارکوں میں منشیات کے عادی افراد کے ڈیرے ڈالنے کی آئی ہے، تھانہ تاتارا اور تھانہ حیات آباد کے ایس ایچ اوز سے فوری توجہ کی گزارش ہے۔
ہر بدھ کو شائع ہونے والے اس کالم کیلئے قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 03379750639 پر میسج کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں