سیاست پر توجہ معیشت سے غفلت

ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سیاست ان دنوں بڑے مدوجزر کا شکار ہے اور ہربدلتے لمحے کے ساتھ سیاسی طور پرڈرامائی پیشرفت ہو رہی ہے اس کیفیت میں قوم اتنی محو ہے کہ مہنگائی ‘ بے ر وزگاری ‘ گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ وغیرہ جیسے معاملات پس منظر میں چلے گئے ہیں ایسا وقتی طور پر ضرور ہوا ہے لیکن جب یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا تو موجودہ حکومت یا پھر ممکنہ طور پر نئی حکومت ہر دو کے لئے یہ مسائل عفریت بن کر سامنے آئیں گے جس کا ا ن کو اگر اندازہ ہے بھی تو وہ اس پر بات کرنے سے گریزاں ہیں اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی بحران ملکی معیشت کو بہت بری طرح متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ کاروباری اور معاشی سرگرمیاں اس کے منفی اثرات کی زد میں ہے۔وزیراعظم عمران خان کے خلاف جاری تحریک عدم اعتماد کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ملک میں اعلیٰ حکومتی شخصیات اپنا کام کاج چھوڑ کر سیاسی بحران سے نمٹنے کے لئے سرگرداں ہیں۔ سرکاری دفتروں میں بیوروکریسی”دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی کے تحت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس کئی ہفتوں سے مسلسل ملتوی ہو رہا ہے اور فوری نوعیت کے کئی اہم اقتصادی فیصلے نہیں ہو پا رہے ہیں۔اس وقت ملک میں جو عدم استحکام کی سی صورتحال ہے اس سے ملکی معیشت پر فوری’ وسط مدتی اور طویل مدتی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ اقتصادی گروتھ کی رفتار سست ہونے اور مہنگائی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ آگے چل کر غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے اور اس خرابی کے طویل المیعاد اثرات یہ ہوں گے کہ معیشت کے لئے اصلاحات اور اسٹرکچرل تبدیلیوں کی جو اشد ضرورت ہے وہ اب اور مشکل ہو جائیں گی۔ پاکستان کے کئی معاشی اعشارئیے اقتصادی حالات کی مشکلات کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں ان میں سب سے اول یہ کہ ڈالر182روپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے، سٹاک ایکسچینج میں بھی ابتری پیدا ہے، فوڈ اور نان فوڈ انفلیشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے’ اگر نئی حکومت آنے والے دنوں میں ٹیکسوں میں اضافے پر مجبور ہوئی تو اس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں’ سکولوں کی فیسوں اور یوٹیلٹی بلوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی بہت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔حزب اختلاف کے دبائو سے خوفزدہ حکومت نے وسائل نہ ہونے کے باوجود تیل و بجلی کی قیمتوں میں کمی کرکے آنے والے دنوں کے لئے ایک اور بحران کا گویا خود اپنے ہاتھوں بندوبست کر لیا ہے کیونکہ معاشی نظم و ضبط اور زمینی حقائق کے خلاف ریلیف دینے سے آنے والے دنوں میں جو مسائل سامنے آئیں گے اور جو بھی حکومت ہو گی اس کے لئے ان اقدامات کو واپس لینا آسان نہ ہو گا۔دوسری جانب ملک میں جاری عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی کے اثرات نئی سرمایہ کاری کے معطل ہونے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں جس کے باعث ہمارے برآمدکنندگان اس تذبذب کا شکارہیں کہ اس غیر یقینی کی صورتحال میں وہ جو فیصلہ کریں آنے والے دنوں میں یہ مراعات برقرار رہیں گی یا نہیںایسے میں برآمدکنندگان کے مخمصے کا شکار ہو کر کسی فیصلے پر نہ پہنچنا بھی سنگین صورتحال ہے ایک ایسے وقت جب یورپی خریدار موسم سرما کے آرڈر فائنل کر رہے ہیں لیکن ہمارے ایکسپورٹر کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کو دی جانے والی مراعات کے حوالے سے آمدہ دنوں میں کیا تبدیلی آئے گی ۔محولہ معاشی حالات ایک طرف دوسری جانب ہمارے سیاسی عناصر ایک دوسرے کو حیرت زدہ کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اب تک اس امر کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کہ ذاتی اور سیاسی فوائدہی مطمع نظر ہے یا ملکی مفاد کا بھی خیال رکھا جارہا ہے دیکھا جائے تو روایت کے مطابق ہر کوئی زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے اور زیادہ سے زیادہ مراعات کی پیشکش کرکے اپنا پلہ بھاری کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ مہنگائی مکائو کا صرف نعرہ ہی لگ رہا ہے حالانکہ مہنگائی کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے نعروں ‘ دعوئوں اور تقریروں سے ختم کیا جا سکے ۔حکومتی جلسے ہوں یا حزب اختلاف کے اجتماعات دونوں میں کوئی ایسی قابل عمل پالیسی اور حکمت عملی کا عندیہ نہیں ملتا جس سے یہ امید وابستہ کی جا سکے کہ اس کے نتیجے میں معیشت ‘ صنعت اور زراعت جیسے پیداواری شعبوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوئی امید پیدا ہو سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر جب تک عوامی مفادات اور ملکی مفادات جو معیشت اوراقتصادیات کے گرد گھومتی ہیں اس حوالے سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہ آئے تو خیر کی توقع عبث ہے ۔مشکل امر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی پہلی ترجیح اقتدار اور آخری ترجیح عوام و معیشت ہوں تو بہتری کی کوئی امیدوابستہ کیسے کی جائے سیاسی حالات اپنی جگہ ملکی معاملات اور ملکی معیشت کے حوالے سے ہماری سیاسی جماعتوں کی سطح پر کوئی نمایاں اور مثبت سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے دیکھا جائے تو آج کے حالات بھی وہی ہیں جو آج سے تیس برس پہلے تھے خدشہ ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد اور نمبروں کی گیم کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے تو خدانخواستہ پہلے سے معاشی ‘ اقتصادی مشکلات کا شکارملک کسی نئی مشکل سے دو چار نہ ہو۔ اس بحران کو جلد سے جلد حل ہونا چاہئے اور اس امر کی یقین دہانی ہونی چاہئے کہ حکومتی تبدیلی کی صورت میں بھی موجودہ اقتصادی پالیسیاں جاری رہیں گی تاکہ سرمایہ کار بلا تذبذب فیصلے کر سکیں اور ملکی معیشت کا پہیہ چلے۔

مزید پڑھیں:  پپیتا، چقندر اور ڈینگی