بڑھتی ہوئی آبادی کا دھماکہ

چند روز قبل ایک صاحب اسلام آباد سے پشاور تشریف لائے ، اپنے میزبان کے ہاں دیر سے پہنچتے ہی کہنے لگے کہ ہمارے مُلک میں ایک ممکنہ دھماکہ سے بہت جلد تباہی ہونے والی ہے ۔ یہ بڑھتی ہوئی آبادی کا دھماکہ ہوگا جس کے اثرات ظاہر ہیں ، اسلام آباد سے پشاور شہرآنے میں جو وقت صرف ہوا پھر مَیں اُتنے ہی وقت میں شہر سے یہاں حیات آباد تک پہنچا ۔ اُن کا کہا درست ہے ، چلیں پشاور میں تو ایک ہی سڑک ہے جس پر لوگوں کا رات گئے آنا جانا رہتا ہے لیکن یہی حال ان شہروں کا بھی ہے جہاں ایک جگہ پہنچنے کے لیے متبادل راستے ہیں ۔ سڑکوں کے علاوہ یہی بھیڑ بازاروں ، دفاتر ، بینکوں ، ہسپتالوں بلکہ ہر جگہ لگی رہتی ہے ۔ آبادی کی شماریات کے مطابق پاکستان دُنیا کا پانچواں بڑا مُلک ہے جبکہ انڈیا اور چین پہلے دوسرے نمبر پہ ہیں ۔ اسی شماریات سے معلوم ہوا کہ جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر تقریباً تین کروڑ کا سالانہ اضافہ ہوتا ہے جو پوری دُنیا کے اضافے کا تیس فیصد ہے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی یہ شرح اس خطہ کے لیے بڑی تشویش ناک ہے ۔ایک وقت تھا کہ لوگ صرف روٹی ، کپڑا مکان کی بات کیا کرتے تھے ، اب ہر ایک صاف پانی اور صاف دھوپ کی تلاش میں ہے ۔ دُنیامیں ایک اکثریت کو صاف پانی میسر نہیں اور یہ تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ اس آبادی کے باعث شہروں میں آلودگی اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ ماہرین ِ ماحولیات برملا کہتے ہیں کہ شہری لوگ سانس نہیں لے رہے بلکہ سموکنگ کر رہے ہیں ۔ شہروں میں اونچی ا ونچی عمارتوں کی تعمیر اور زمین کو سیمنٹ فولاد سے بھرنے پر بارش کا پانی نیچے زمین میں جذب ہی نہیں ہو رہا ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت کم ہو چکی ہے ۔ کراچی کی مثال سامنے ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جب دُنیا کے بہت سے ممالک کی آبادی بڑھنے لگی تو آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس وقت مصنوعی کھاد ، بیج اوربناسپتی گھی کا استعمال شروع ہوا تھا ۔ اب تو ہمارے ہاں مصنوعی کھاد کے بغیر کوئی فصل کاشت نہیں کی جاتی ۔ یہاں تک کہ سبزیاں بھی مصنوعی کھاد کی پیداوار ہیں ۔ زمین کے اندر یہ کیمیکلز شامل کرنے سے پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ سب بڑھتی ہوئی آبادی کا کیا دھرا ہے ۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی آبادی تین کروڑسے کچھ زیادہ تھی اور اب یہ بائیس کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔ ساٹھ کی دہائی میں یہاں ایک ڈکٹیٹر نے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے سے متعلق ایک منصوبہ شروع کیا ، فلموں اور سرکاری ذرائع سے لوگوں کو آگاہی دی جاتی رہی اور بعد ازاں آبادی کنٹرول کرنے کا محکمہ بھی تشکیل ہوا لیکن نوے کی دہائی میں ایک دوسرے ڈکٹیٹر نے مذہبی جنون میں آبادی کو قابو پانے کا منصوبہ ہی ترک کردیا ۔ چین میں ” ایک جوڑا ، ایک بچہ ” کا قانون نافذ کیا گیا ۔ دوسرے بچے کے جنم پر والدین کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ۔ کسی نے بھی اس قانون کی مخالفت نہ کی ، پھر چند برسوں بعد چین کی حکومت نے از خود قانون میں نرمی کرتے ہوئے ایک کی بجائے دو بچوں کی اجازت دے دی ۔ چین میں اکثریت اب بھی ایک بچے کے قانون سے اس قدر مانوس ہو چکی ہے اپنے ایک بیٹے یا بیٹی پر اکتفا کیے ہوئے ہے ۔ ہمارے ہاں معاملہ بر عکس ہے ، اول اگر کسی جوڑے کے ہاں قدرتی طور پہ بچے کی پیدائش میں دیری ہو جائے یا نہ ہو تو طعنے دینے کے علاوہ دوسری شادی پہ مجبور کیا جاتا ہے ۔ بیٹیوں کو زبانی کلامی رحمت سمجھنے والے بیٹے کی آس لیے آبادی میں اضافہ کیے جا رہے ہوتے ہیں ۔ ایک بڑی تعداد میں مخصوص ذہنیت رکھنے والے اور علاقائی یا نسلی روایتوں سے جڑے ہوئے لوگ زچہ بچہ کی صحت اور مستقبل میں تعلیمی و معاشی دُشواری کی پرواہ کیے بغیر اپنے گھر میں بچوں کی فوج پہ فخر کرتے ہیں ۔ پاپولیشن پلاننگ کی ترغیب اور اس کے طریقہ کار کی نہ صرف بھر پور مخالفت کی جاتی رہی بلکہ اسے مذہبی عقائد اور سماجی رسوم و قیود کے خلاف سازش کا نام دیا گیا ۔ پہلے پہل چین میں بھی اسے کمیونزم کے خلاف کھلی کارروائی کا نام دیا گیا مگر جب بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے مُلک میں کئی حوالوں سے ایک خطر ناک عمل سمجھا تو ایک بچے کا سخت قانون لاگو کر دیا ۔ ہمارے ہاں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف ادوار میں حکومتی سطح پریہ احسا س ضرور جاگا کہ پاپولیشن پلاننگ بہتر انداز میں اختیار کی جائے لیکن بوجوہ یہ کسی حکومت کی واضح ترجیح نہیں رہی ۔ ایک عرصہ قبل محکمہ آبادی نے کئی علماء کرام کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے ضبط ولادت کے مسّلہ پر نہایت موثر انداز میں عالمانہ بیانات دئیے، مگر یہ سلسلہ رک سا گیا ہے ۔
ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین نے بھی نئے شہر بسانے کی بڑی معقول اور تکنیکی تجاویز دی ہیں جس سے بڑے شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑی حد تک کم ہو سکتا ہے اور ان شہروں کے گرد و نواح میں زرعی زمین بھی محفوظ رہ سکتی ہے ۔ تعلیمی اداروں کی سطح پر نصاب میں آبادی سے متعلق مضامین شامل کیے جا سکتے ہیں ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے دھماکہ سے بچاؤ بہت ضروری ہو چکا ہے ورنہ غذائی مشکلات کے علاوہ سانس لینے اور آنے جانے میں بڑی تکلیف کا سامنا رہے گا ۔

مزید پڑھیں:  تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے