پاک چین تعلقات اور قومی مفاد

وفاقی وزیر منصوبہ بندی ا حسن اقبال کے اس موقف سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو انہوں نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ پاک چین تعلقات ریاستی مفادات کا معاملہ ہے اس حوالے سے دونوں ملکوں کے مابین باہمی دوستانہ تعلقات کے حوالے سے ابتداء ہی سے جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ ان تعلقات کی نوعیت کو ہ ہمالہ سے اونچے ، سمندر سے گہرے اور ان کی مضبوطی کے لئے جو بیانیہ استعمال کیا جاتا ہے ان سے ہی ان باہمی دوستانہ اور ہمسائیگی کے حوالے سے وضاحت ہوتی ہے ، تاہم بقول وزیر منصوبہ بندی چند روز پر ان تعلقات پرایک سیاسی جماعت منفی پروپیگنڈہ کرکے کسی دشمن سے بھی زیادہ برا کردارادا کر رہی ہے ، محولہ سیاسی جماعت پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کے حوالے سے میڈیا ٹرولنگ کرتے ہوئے یہ جماعت دعوے کر رہی ہے کہ چین نے تعلقات کی سطح نیچے کر دی ہے ، احسن اقبال نے کہا ہے کہ یہ طرز عمل جمہوری ہے نہ تعمیری ، ریاست اور سیاست میں فرق سمجھیں اور ریاستی مفادات کے ساتھ کھیلیں گے تو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا انہوں نے کہا کہ آپ یہ چاہیں کہ اسمبلیوں سے ٹی اے ڈی اے بھی وصول کریں اور سڑکوں پر انتشار پیدا کرکے ملکی ترقی سبوتاژ کریں تو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی ، انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں انار کی کوہوا نہ دیں ، جہاں تک پاک چین تعلقات کے حوالے سے بقول احسن ا قبال پروپیگنڈہ اور ٹرولنگ کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، محولہ سیاسی جماعت کے سابقہ کردار کو دیکھا جائے تو اس نے 2014ء میں اسلام آباد ڈی چوک میں جوطویل دھرنا دیا تھا اس کا مقصد بھی نہ صرف اس وقت چین کے صدر کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرنا تھا جس کے دوران پاکستان اور چین کے مابین سی پیک معاہدے کے تحت کئی اہم منصوبوں پرجن کی مالیت کھربوں میں بنتی تھی دستخط ہونا تھے ، مگر چین کے صدر کے اس دورے کو مبینہ طور پر ا ن بیرونی قوتوں کی ”ایما” پر جو نہ تو سی پیک کی تکمیل ہوتے دیکھنا چاہتے تھے نہ ہی چین اور پاکستان کے مابین مزید کھربوں کے معاہدوں پر دستخطوں سے پاکستان کی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے پر راضی تھے ، اسی دھرنے کے ذریعے سبوتاژ کیا گیا حالانکہ اس وقت حکومت نے بہت کوشش کی کہ صدر چین کے دورے کے دوران دھرنا جاری نہ رکھا جائے ، مگرملک و قوم کے مفادات کے برعکس اس حکومتی درخواست کو ٹھکرا کر پاکستان کی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے ، اور یوں صدر چین نے اس دورے کو منسوخ کرکے عالمی سازشوں کی کامیابی کی راہ ہموار کی معاملہ یہاں تک رکتا تو پھر بھی کچھ زیادہ مسئلہ نہ ہوتا مگر اس کے بعد لیگ نون کی حکومت کوگرانے کے لئے میاں نواز شریف کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنے گئے اور ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پانامہ لیکس کا غلغلہ چھوڑا گیا اس میں پاکستان کے چار سو سے زیادہ افراد کے نام ہونے کے باوجود صرف اس وقت کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف عدالت سے رجوع کیاگیا اور عدالت کے بعض کرداروں نے جس ”تندہی اور سرعت” کے ساتھ پانامہ میں سے اقامہ نکال کر بلیک لاڈکشنری کی مدد سے نواز شریف کو نہ صرف اقتدار سے محروم کیاگیا بلکہ انہیں تاحیات سیاست سے فارغ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ، اس کے بعد 2018ء کے انتخابات کوجس طرح بعض ”طاقتور حلقوں” نے مداخلت کرکے آر ٹی ایس بٹھا کر ایک ایسے شخص کو ملک پر مسلط کروایا جس کولانے کے پیچھے کئی مقاصد کارفرما تھے ، اس نے اقتدار میں آکر نہ صرف سی بیک کو سبوتاژ کیا چین کے ساتھ دیگرمعاہدوں کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے بلکہ جاتے جاتے آئی ایم ایف کے ساتھ خود اپنے ہی کئے ہوئے معاہدوں پر یوٹرن لیتے ہوئے ملکی معیشت کو تباہی اور بربادی سے دو چار کیا ، اور اب جبکہ موجودہ حکومت ایک بار پھر نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے پیش رفت کرتی نظر آرہی ہے اور چین کے ساتھ سی پیک کے احیاء کی کوششیں کرکے نئے معاہدوں پر بھی آگے بڑھتی ہوئی دکھای دے رہی ہے محولہ سیاسی جماعت کے پروپیگنڈہ ونگ کی جانب سے پاک چین تعلقات اور معاہدوں کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ زور پکڑ رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ متعلقہ سیاسی جماعت اگر منتخب حکومت کے خلاف ہے اور اسے ”گرانے” کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تو ملک و قوم نے اس کا کیابگاڑا ہے کہ وہ ملکی مفادات کے خلاف کیل کانٹے سے لیس ہو کر اس کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے ، جماعت کا سربراہ جیل میں بیٹھ کر اگر اپنی صلاحیتیں ، ملکی مفادات کے خلاف استعمال کی بجائے اپنی رہائی کے لئے استعمال کریں تو یہ خود ان کے حق میں بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ووٹ کو عزت دو؟؟