انسداد منشیات کے تقاضے

خیبر پختونخوا حکومت کا صوبہ بھر میں انٹی نارکوٹکس ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی سربراہی میں اینٹی نارکوٹکس ٹاسک فورس قائم کرنے اور انسداد منشیات سمیت اس کی تیاری اور سپلائی کا سدباب کرنے کے حوالے سے مجوزہ اقدامات قابل تحسین اور وقت کی ضرورت کا بخوبی احساس ہے جیسا کہ بیانکیا گیا ہے کہ صوبائی ٹاسک فورس کی ذمہ داریوں میں منشیات کی تیاری اور سپلائی کا سدباب کرنا، خصوصاً تعلیمی اداروں، ہاسٹلز اور جیلوں میں منشیات کی فراہمی کا تدارک شامل ہے۔ٹاسک فورس طبی اور سائنسی مقاصد کے نام پر منشیات کے غیر قانونی استعمال کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی بھی نگرانی کرے گی جبکہ قائم ٹاسک فورس منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے، بحالی اور انہیں سماجی دھارے میں شامل کرنے سے متعلق امور کی بھی نگرانی کرے گی۔انسداد منشیات کے حوالے سے قبل ازیں کمشنر پشاورکافی مساعی کر چکے ہیں مگرتسلسل نہ ہونے سے وہ اقدامات وقتی اورلاحاصل ثابت ہوئے اس کے باوجود بھی اس سے انکار ممکن نہیںکہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے حوالے سے بھی کچھ تھوڑی بہت کاوشیں ہوچکیں اس مسئلے پر غور کیا جائے تو ایک نظرمیں یہ اتنا مشکل کام نظر نہیں آتالیکن مافیا کا خاتمہ اور اس کا دھندہ چوپٹ کرناکوئی آسان کام بہرحال نہیں ہوسکتا بہرحال ممکنہ اقدامات کے طور پر سیدھے سادھے طریقے سے ہر تھانے کی پولیس کو ذمہ داری دی جائے کہ ان کے علاقے میں منشیات کا عادی کوئی شخص نظرنہ آئے منشیات کے عادی افراد صرف نشے میں دھت فٹ پاتھوں ، گرین بیلٹ سنٹر میڈیا ، انتظار گاہوں اور پلوں کے نیچے میلے کچلے کپڑوں میں پڑے ہونے کا کریہہ منظر پیش نہیں کر رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ تووہ ظاہر اور لاعلاج منشیات کے عادی افراد ہیں ان کا اصل چہرہ چھوٹی موٹی چوریاں رہزنی سرکاری و نجی املاک سے لوہا اورسریا کاٹ کر کباڑ میں فروخت کرکے نشے کے حصول کے لئے رقم کا بندوبست کرنا ہے اس تجویز کا باربار اعادہ کرنے کے باوجود حکام توجہ دینے پر تیار نہیں کہ کباڑیوں کو ان افراد سے کباڑ کے سامان کی خریداری نہ کرنے کا پابند بنایا جائے اس طرح سے ہی سرکاری و نجی املاک کا کسی حد تک تحفظ ممکن ہوسکے گا مگر المیہ یہ ہے کہ یہ افراد کھلے عام صبح سے شام تک میلی کچیلی بوریاں اٹھائے اس دھندے میں جتے نظر آتے ہیں جو پولیس کو قطعی خاطر میں نہیں لاتے اور پولیس بھی ان کو ہاتھ لگانے کی اب ہمت نہیں کرتی اور نہ ہی پولیس کے پاس ان کا کوئی علاج ہے پولیس کم از کم ان کو چوری چکاری اور املاک کی تباہی سے تو روک سکتی ہے اور چور ی کا سامان خریدنے والے کباڑیوں کی نگرانی کرکے ان کے خلاف کارروائی تو کرسکتی ہے مگر کرے کون؟ ایک موثر عمل ان افراد تک منشیات کی رسد کی بندش ہے ان افراد کو اگر ایک دن بھی منشیات نہ ملے تو علاقہ خودبخود چھوڑ دیں گے یہ بھی زیادہ مشکل کام نہیں مگر نہ تو پولیس اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے اہلکار وحکام اس کی طرف توجہ دیتے ہیں بلکہ یہ دھندا ان کی سرپرستی کے بغیرممکن ہی نہیں جب اعلانیہ منشیات استعمال کرنے والے افراد کو منشیات کی سپلائی کی روک تھام نہیں ہو رہی ہے تو خفیہ طور پرموٹر سائیکل پر گھرگھر ، گلی گلی ، محلہ محلہ رہائشی عمارتوں اور ہاسٹلز میں منشیات پہنچانے والوں کاراستہ روکنا تو جدجہد مانگتا ہے جس کی تو توقع ہی عبث ہوگا۔ منشیات سپلائی کرنے والے عناصر کی دیدہ دلیری کا اس سے بڑھ کر اندازہ کیا لگایا جائے کہ یہ افراد میڈیا ہائوسز میں بھی اپنے گاہکوں کو ”مال” پہنچانے میں ذرا نہیں ہچکچاتے اسی طرح ہر ادارے میں ان کے گاہک ہونے اور ان کی سرپرستی کے ساتھ دھندے میں فروغ کا باعث ہونابعید نہیں حکومت نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے عادی افراد کو سامنے لانے کے لئے ٹیسٹ کرنے کے جسعمل کااعلان کیا تھا اس پرعملدرآمدسرکاری وغیر سرکاری و نجی ہاسٹلوں سے سمپل لے کر نمونے کے طور پر شروع کیا جائے توتو یہ بڑا قدم کہلائے گا جس سے منشیات کے عادی افراد میں کھلبلی مچ سکتی ہے تعلیمی اداروں میں نشے کی لعنت کی روک تھام کے لئے یہ ایک انقلابی قدم ہوگا نشے کی علامات دیکھ کر اندازہ لگانا بھی چنداں مشکل نہیں ایسے میں مشکوک افراد ہی کا ٹیسٹ کرکے بھانڈا پھوٹنے کا دوسروں کو خوف دلایا جائے تو یہ ماحول میں بہتری لانے میں کافی ممدو معاون ثابت ہو سکے گا۔ کرنے کے لئے اقدامات اور طریقہ کار بہت ہیں صرف عزم کے ساتھ کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے توقع کی جانی چاہئے کہ ٹاسک فورس کا جن مقاصد کے ساتھ اعلان کیاگیا ہے یہ کھوکھلے دعوے اور اعلان ثابت نہ ہو گابلکہ فعال کردار اور اقدامات کے ذریعے انسداد منشیات کی اہم ذمہ داری نبھائے گی۔

مزید پڑھیں:  قرض کی منظوری