قومی اتفاق رائے کی ضرورت

پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے نئے فوجی آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے افغانستان کی قائم مقام طالبان حکومت پر وہاں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کے دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے دبا بڑھانے کی غرض سے نئی ٹھوس سفارتی کوششیں شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف اس نئے فوجی آپریشن کے دو پہلو ہیں، پہلا نمبر اندرونی سکیورٹی کی صورت حال جبکہ دوسرا پہلو بیرونی خطرات کا تدارک کرنا جو افغانستان سے ہے۔ نئے آپریشن کے تحت خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوگی جو انسداد دہشت گردی مہم کا حصہ ہیں ۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عزم استحکام آپریشن پر قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلا کر اس پر بحث کرائی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عزم استحکام آپریشن سے متعلق وزیردفاع بات کرنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن نے بات نہیں کرنے دی۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مشاورت نہ کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے کوئی بات نہیں کی، وزیردفاع کی تقریر کا ایک لفظ اپوزیشن نے نہیں سنا، کیسے مشاورت کریں؟۔دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے ملک میں کسی بھی قسم کے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالا تر نہیں ہے۔ ہم کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے، کوئی فیصلہ یا معاہدہ ہوا ہے تو اسے پارلیمینٹ میں لایا جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے لئے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی۔حکومت کو اس ضمن میں تحریک انصاف کے طرز عمل کی شکایت ہے مگرجہاں صورتحال یہ ہو کہ وزیر دفاع ایوان میں بات شروع کرتے ہی کہہ دیں کہ پی ٹی آئی آج بھی فوج کے خلاف دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے تو پھر اس کا ردعمل بھی سخت آنا فطری امر تھا ۔امرواقع یہ ہے کہ دہشت گردی اور معیشت دو ایسے معاملات ہیں جس پر سیاست اور اختلاف کی گنجائش نہیں اور اس پر سیاسی قیادت نے اختلافات کے باوجود مفاہمانہ کردار اور تعاون کا اظہار کیا ہے اور یہی قومی مفاد کا تقاضا اور ہوشمندانہ طرز عمل ہے اس ضمن میں جہاں سیاسی جماعتوں اور قائد ین سے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کے کردار کا تقاضا کیا جائے وہاں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کے لئے جتنا ممکن ہو سکے حالات ساز گار بنانے کی ذمہ داری نبھائے وزیر دفاع کا محولہ ایک جملہ سارے کئے کرائے پرپانی پھیرنے کے لئے کافی تھا کسی سیاسی جماعت سے اختلافات اور ناپسندیدگی کا ہر کسی کو حق حاصل ہے لیکن من الحیث المجموع کسی پر بھی ناپسندیدہ عناصر سے گٹھ جوڑ کا ا لزام اس طرح سے نہیں لگایا جا سکتا یہ درست ہے کہ پالیسیوں میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن غلطی کو غلطی قرار دے کر اس کو سدھارنے اور عدم اعادے کے اقدامات کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ انگشت نمائی کرکے ماحول کو برانگیختہ کیا جائے ۔ محولہ صورتحال اور فیصلے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا قومی مفاد کا تقاضا ہے اس ضمن میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی مفاد کو ہرچیز پر مقدم رکھیں جہاں تک تحفظات کے اظہار کا سوال ہے اس کی کئی وجوہات اپنی جگہ لیکن عرصے سے جاری صورتحال کے تناظرمیں یہ نئے اقدامات کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ ایک عرصے سے دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی جو مہم پورے زور و شور سے جاری ہے اب اس سلسلے کو آگے بڑھانے ہی کے عمل کا فیصلہ کیا گیا ہے پشاور میں آرمی پبلک سکول کے اندوہناک واقعے کے بعد جس قومی ایکشن پلان کی منظوری دی گئی تھی اس پر سبھی کا اتفاق ہے اور ایپکس کمیٹی کی تشکیل بھی اسی وقت ہی ہوئی تھی بجائے اس کے کہ اس موقع پر کوئی نیا پینڈورابکس کھولا جائے اصل سوال یہ اٹھایاجانا چاہئے کہ قومی ایکشن پلان کے نکات پر کامل اتفاق کے باوجود ابھی تک عملدرآمد کی صورتحال ادھوری او ر کمزور کیوں ہے جو فیصلے کئے گئے تھے اس پر عملدرآمد میں رکاوٹیں اور مشکلات کیا ہیں اور ان کو کیسے دور کیا جائے جن عناصر کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور مخالفت کی جارہی ہے ان کی بات سنی جائے تحمل و برداشت سے ان کے تحفظات دور کرنے کے اقدامات کرکے ان کو مطمئن کیا جائے بلاوجہ کے خط کھینچنے کا عمل اب تک لاحاصل ہی رہا ہے اور آئندہ بھی اس کاکوئی فائدہ نظر نہیں آتا جہاں تک دہشت گردوں کی سرکوبی و بیخ کنی کا سوال ہے اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں اختلاف تو طریقہ کار اور اس عمل کے لامتناہی ہونے پر ہے جسے دور کرنے کے لئے ایوان کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ ان طبقات او رنمائندوں کی بھی تشفی کی ضرورت ہے ان کے تحفظات کا جواب دے کر ان کو مطمئن کرنے کی سنجیدہ سعی کی جائے تو کوئی متنازعہ امر باقی نہیں رہے گا۔

مزید پڑھیں:  قرض کی منظوری