ڈالر پاکستان افغانستان میںامریکی سامرجیت کا مستقل سبب

دنیا اس وقت عالمی ریزرو کرنسی اور تجارتی کرنسی کے لیے امریکی ڈالر کی محتاج ہے ۔ امریکی ڈالر کی یہ بالادستی دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئی تھی جو تاحال جاری و ساری ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے دنیا کے دیگر طاقتور ممالک اس بالادستی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن تاحال وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ روس ، چین ، انگلینڈ، یورپ ، جاپان اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک اب بھی بڑے تجارتی سودے امریکی ڈالرز میں کرتے ہیں ۔ امریکی ڈالر کو 1974 میں امریکہ اور سعودی عرب کے مابین ایک معاہدے ” پیٹرو ڈالر ” کی وجہ سے دنیا بھر میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی ۔ اس معاہدے کی رو سے امریکی ڈالر اور خام تیل کی قیمتوں کو یکجا کردیا گیا تھا ۔ جس کی وجہ سے سعودی تیل کے تمام پیسے امریکی نظام تجارت اور بنکوں میں جمع ہونے لگے ۔ انہی پیسوں سے امریکہ نے سعودی عرب کو کھربوں ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا اور انہیں پیسوں سے سعودی حکومت اور کمپنیوں نے امریکن بانڈز میں کثیر سرمایہ کاری کی ۔ امریکی ڈالرز کے زور کو توڑنے کے لیے یورپی یونین نے مشترکہ کرنسی یورو متعارف کروائی مگر عالمی تجارت اور ریزروکرنسی میں اس کا حصہ اب بھی صرف 19فیصد ہے ۔جبکہ چین جیسے بڑے معیشت کا حصہ ان کی کرنسی کی شکل میں صرف ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے ۔جاپانی ین کا حصہ ساڑھے پانچ فیصد، سٹرلنگ پاونڈ کا حصہ پانچ فیصد کے قریب ہے ۔کنیڈین ڈالر کا حصہ ڈھائی فیصد اور آسٹریلین ڈالر کا حصہ دو فیصد ہے ۔ دنیا کی باقی تمام کرنسیوں کا حصہ چار فیصد سے کچھ کم ہے ۔ امریکن ڈالر اب بھی دنیا کی مارکیٹ اور ریزرو کرنسی کے تقریباً 60 فیصد حصے کا مالک ہے ۔ مگر حالیہ دنوں میں کچھ ایسی پیش رفتیں ہوئی ہیں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ڈالر کی حکمرانی اب زیادہ دیر برقرار نہیں رہ پائے گی ۔ سعودی عرب اورامریکہ کے مابین ” پیٹرو ڈالر ” کا معاہدہ اس برس 9 جون کو ختم ہوگیا ہے ۔ یہ معاہدہ پچاس برس کے لیے تھا ۔ تاحال سعودی عرب نے اس کی تجدید نہیں کی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب سعودی عرب چین اور بھارت کے ساتھ امریکی ڈالرز کے بجائے ان کے مقامی کرنسیوں میں تجارت کرے گا ۔ امریکہ کی سٹاک ایکسچینجوں میں اس کی وجہ سے عدم استحکام آئے گا اور خام تیل کی اجارہ داری امریکہ کے ہاتھوں سے نکل جائے گی ۔ لیکن یہ ایک واحد وجہ نہیں ہے ۔ روس دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا رہا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ویت نام کے ساتھ روسی معاہدوں کے نتیجے میں ویتنامی تجارت کا امریکی ڈالر کے بجائے دیگر ذرائع کا استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ تجارتی منڈیا ں اب ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں ۔ یہ کام اس سے پہلے برازیل اور ترکی کرچکے ہیں ۔ چین مسلسل اپنی کرنسی میں اپنی تجارت بڑھا رہا ہے ۔ ایران اور وینزویلابھی اس سلسلے میں شامل ہوچکے ہیں ۔ حالیہ یوکرین وار کے نتیجے میں جب امریکہ نے ڈالر کو بطور ہتھیار استعمال کرکے روسی حکومت اور کمپنیوں کے پیسے ضبط کیے اور ان پیسوں میں سے پچاس ارب ڈالر یوکرین کو دئیے تو اس نے باقی دنیا کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی ریزروکرنسی کو اپنے حدود و اختیار میں رکھیں ۔ چین اور بھارت کا تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا تجارتی حجم بھی دنیا میں امریکی ڈالر کی حکمرانی کو زیادہ دیر چلنے نہیں دے گا ۔ امریکہ نے ڈالر کے ذریعہ دنیا میں سامراجیت کا ایک منظم نیٹ ورک بنایا ہے ۔ پاکستان اور افغانستان اسی سامراجی نیٹ ورک کا شکار ہیں ۔ باقی دنیا کے مقابلے میں یہ دو ممالک کلیتہً امریکی ڈالروں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ اس وجہ سے پاکستان میں شدید ترین کساد بازاری اور مہنگائی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کا تما م اندرونی اور بیرونی کاروبار ڈالروں میں ہوتا ہے ۔ اس لیے حکومتوں سے لیکر تاجروں تک سب کو ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی مقامی کرنسیاں ڈی ویلیو ہوتی جاتی ہیں اور حکومتوں کو مجبوری میں ڈالروں کی بلیک مارکیٹنگ کرنی پڑتی ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ ایک باقاعدہ کاروبار بن گیا کہ لوگ اور سرمایہ کار صرف ڈالر ز خرید کر سرمائے کو ایک جگہ جمع کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت مقامی پیسوں کے مقابلے میں بڑھ رہی ہے ۔ حکومتوں کو بیرونی قرضے واپس کرنے کے لیے ڈالروں کی ضرورت پڑتی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے حکومتیں مقامی مارکیٹوں سے مہنگے داموں ڈالروں کی خریداری کرتی ہیں ۔ افغانستان کا سارا نظام یہاں تک کہ مقامی تجارت بھی ڈالروں کی مرہون منت ہے ۔ آپ افغانستان میں کسی بھی جگہ کوئی گھر ، زمین ، گاڑی یا کوئی دوسری جنس خریدنے جائیں تو آپ کے ساتھ سودا ڈالروں میں کیا جاتا ہے ۔ افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ دنیا بھر میں کی جاتی ہے اوریہ اربوں ڈالرز کا کاروبار ہے ۔ اس کے لیے بھی سودے امریکی ڈالروں میں ہوتے ہیں ۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ پھلوں اور معدنیات کا سارا سودا بھی ڈالروں میں ہی ہوتا ہے ۔ اور یہ سارے ڈالرز پاکستان کی مارکیٹ سے جمع کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی منڈیوں میں ڈالر پر دباؤ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت مسلسل بڑھتی رہتی ہے ۔ جسے حکومت قابو میں رکھنے کے لیے مصنوعی شرح پر رکھنے کے لیے مارکیٹ میں زیادہ داموں پر خریدے گئے ڈالرز کم داموں پر فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے پاکستانی معیشت کو مسلسل نقصان ہورہا ہے ۔ یہ وہ ٹریپ ہے جس سے یہ دونوں ممالک کسی صورت باہر نہیں آسکتے ۔ پاکستان اس گیپ کو کم کرنے کے لیے عالمی بنکوں ، دوست ممالک اور مقامی بنکوں سے مسلسل قرضے لے رہا ہے ۔ اور شرح سود کو دنیا میں سب سے زیادہ رکھ کر یہ قرضے چکاتا ہے جس سے اس کی جی ڈی پی کا بیشتر حصہ قرضوں کے سود اور ادائیگی میں صرف ہوتا ہے ۔ دنیا میں جن جن ممالک میں امریکی ڈالرز کی سامراجیت ہے وہ اس سے نکلنے کی مسلسل اور مربوط کوششیں کررہے ہیں ۔ مگر پاکستان اور افغانستان میں ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی ۔ بلکہ ہم مسلسل اس کے تسلسل کی کوششوں میں مگن ہیں ۔ اس ملک میں ہوش رُبا سمگلنگ کے پیچھے بھی یہی ڈالرز سامراجیت ہے ۔ جس دن اس کا راستہ روکا گیا تو اس دن پاکستان میں منشیات ، اسلحہ ، اور دیگر چیزوں اور اجناس کی اسمگلنگ خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ کرپشن بھی اسی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ۔ اسی وجہ سے ہمارے نظام زر کو ڈیجیٹائزڈ نہیں کیا جارہا اور نہ ہی دنیا کے شفاف اور قابل بھروسہ جدید مالیاتی ترسیل کے سلسلوں کو یہاں کام کرنے کی اجازت مل رہی ہے ۔ دنیا ڈیجیٹل کرنسیوں کی طرف جارہی ہے اور ہم گلی محلوں میں افغان شہریوں کو ڈالروں کی خرید و فروخت میں سہولیات مہیا کررہے ہیں ۔ حوالہ اور ہنڈی کے ہزاروں مراکز کو دن کی روشنی میں کام کرنے اور تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس ڈالرز سامراجیت سے چھٹکارا ایک حکم کی مار ہے ۔ کہ سرکاری بنکوں کے علاوہ کوئی ڈالر فروخت اور خرید نہیں سکے گا ۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟
مزید پڑھیں:  پھلوں کی دکان پرسجے چھلکے

جیسا پوری دنیا میں ہوتا ہے ۔ مگر یہ ایک حکم صادر کرنے سے سب کی جان جاتی ہے ۔ اور اوپر سے آئی ایم ایف ان کی دفاع میں پیش پیش ہوتا ہے کہ ڈالر کو مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دو ۔ جبکہ یہی کام خود امریکہ اپنے ملک میں نہیں کرتا ۔ ہمارے ڈالروں کے ٹھیکہ دار اتنے طاقتور ہیں کہ وہ افغان شہری ہوکر بھی کسی پاکستانی
قانون اور طاقت کو نہیں مانتے اور ہمارے ملک میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔ ان کو اس ملک سے نکال دیں ۔ اور اپنے شہریوںکو قانون کا پابند کردیں ۔ یہ ملک چند ہفتوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے گا ۔