سیاحت اور دہشت گردی

سیاحت دنیا بھر میں زرمبادلہ کے حصول کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ملک میںوہاں کے تاریخی مقامات اور ورثے کو محفوظ اور ان کو ترقی دے کر نہ صرف اندرون ملک بلکہ خصوصاً غیر ملکی سیاحوں کے لئے پرکشش بنا کر ملکی خزانے کو بھرا جاتا ہے جبکہ سیاحت کے سنگ سنگ ان مقامات کی دستکاریوں اور دیگر شعبوں میں سیاحوں کے لئے قابل توجہ بنا کر مقامی سطح پر بے روزگاری کے خاتمے کا اہتمام کیا جاتا ہے پھر ہوٹلنگ کو ترقی دے کر سیاحوں کے لئے رہائشی سہولتیں اور اعلیٰ معیار کی ٹرانسپورٹ کی فراہمی سے ان شعبوں سے بھی آمدن میں اضافہ کیا جاتا ہے ، اس لئے یہ جو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لئے امن و امان ناگزیر ہے تو اس پر تمام سٹیک ہولڈرز کوسنجیدگی کے ساتھ نہ صرف سوچنا چاہئے بلکہ اس ضمن میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر بدامنی میں ا ضافہ کی صورتحال پر غور کرکے ضروری اقدامات اٹھانے پر توجہ بھی دینی چاہئے صوبے کے بالائی علاقوں کو قدرت نے نہایت فراخدلانہ فیاضی سے خوبصورتی سے نوازنے کے ساتھ ساتھ موسموں کی تبدیلی کے حوالے سے ہر موسم میں ان علاقوں کو قابل دید اور توجہ کی خصوصیات سے مزین کرتے ہوئے سیاحوں کی توجہ کے قابل بنایا ہے اور جہاں گرمی کے موسم میں آگ اپنے علاقوں کی تپش سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے خاندانوں کے ہمراہ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو سردی میں بارشوں اور برفباری سے محظوظ ہونے کے لئے بھی ان علاقوں کا رخ کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے ان علاقوں میں ایک بار پھر بدامنی بلکہ دہشت گردی کی وارداتیں وقوع پذیر ہونے لگی ہیں ، ان واقعات کے پیچھے عوامل کیا ہیں ان پر بہت تفصیل کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے اس سلسلے میں ابھی حال ہی میں بارہ غیر ملکی سفارتکاروں کے قافلے پر جو بم حملہ کیا گیا اس نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ باہر کی دنیا میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور ایک ا طلاع کے مطابق ان غیر ملکی سفراء نے خیبر پختونخوا پولیس کی نگرانی میں واپسی کے سفر سے انکار کرتے ہوئے انہیں افواج پاکستان کے تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا جو یقینا سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ محولہ سفارتکاروں کے دورے کے حوالے سے بھی صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین بیان بازی قابل تشویش یوں ہے کہ صوبائی حکومت کے اس الزام کا کہ وفاق نے صوبائی انتظامیہ کو اس دورے سے ہمیں بے خبر رکھا ، دفتر خارجہ کے تازہ بیان میں اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک سرکاری چھٹی کے ذریعے صوبائی حکومت کے تمام ا داروں کو بروقت اطلاع دی گئی تھی امر واقعہ یہ ہے کہ پروٹوکول کے مطابق جب بھی کسی ملک کا سفیر کسی خاص علاقے کا دورہ کرتا ہے تو اس کے لئے دفتر خارجہ سے این او سی لینا پڑتی ہے جس کے بعد صوبائی حکومت ، آئی جی پولیس ، ڈویژنل کمشنر ، ریجنل پولیس آفیسر ، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو تحریری طور پر آگاہ کیا جاتا ہے اس لئے دفتر خارجہ کے دعوے کے مطابق 10 ستمبر 2024ء کو ایک چھٹی (جس کا خبر میں ذکر موجود ہے ) کے ذریعے متعلقہ تمام سرکاری حکام کو آگاہ کیا گیا ادھر صوبائی حکومت کے مشیر برائے ہائوسنگ امجد علی کے وفاق کی جانب سے صوبائی حکومت کو بروقت مطلع نہ کرنے کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے سوات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے بطور میزبان اس دورے کے حوالے سے بتایا ہے کہ خود انہوں نے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن اور آر پی او کے پاس جا کر ملاقات کے دوران اس دورے کے بارے میں بتایا جبکہ چیمبر کی طرف سے بھی خط بھیج دیا گیا تھا اور محولہ سفارتکاروں کے استقبال کے لئے خود چیمبر کے ارکان لنڈاکی کے مقام پر موجود تھے اور ہمارا خیال تھا کہ کمشنر اور آر پی او موجود ہوں گے مگر وہاں ایک خستہ حال موبائل گاڑی میں صرف پانچ پولیس اہلکار ہی موجود تھے انہوں نے بھی صوبائی حکومت کے مشیر امجد علی خان کے دعوے کو غلط قرار دیا ان حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ایک طرف تو وزیر اعلیٰ صوبے میں سیاحت کے فروغ دینے کے لئے امن کو ناگزیرقرار دیتے ہیں جس کے عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر دوسری جانب عام سیاحوں کو تو ایک طرف رکھئے 12 اہم غیر ملکی سفیروں کے دورے کو تحفظ فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اس سے کئی سوال ابھرتے ہیں سب سے اہم سوال وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی مخاصمت اپنی جگہ مگریوں غیر ملکی سفیروں کے دورے کو ”قابل تحفظ”نہ سمجھنے اور بم بلاسٹ ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے کیا محولہ علاقے میں کوئی بھی آنے اور سیاحت کے فروغ میں دلچسپی لینے کی زحمت کرے گا؟۔

مزید پڑھیں:  خواجہ آصف کابیان ،گودی میڈیا سیخ پا