ووٹ کو عزت دو؟؟

جمہوریت میں سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو بے وقوف بنانے کا وطیرہ نیا نہیں ہے۔ عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کے لئے نت نئے حربے ہر وقت اور ہر دور میں استعمال کئے جاتے رہے ہیں، فرق صرف اتنی سی ہے کہ ان طریقوں کو وقت اور ماحول کی مناسبت سے نت نئے نام دئے جاتے ہیں۔ عوام کو کبھی جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنایا جاتا ہے تو کبھی ”قومی مفاد”کے نام پر، کبھی سادہ لوح عوام کو اسلام کے نام پر دھوکہ دیا جاتا ہے تو کبھی قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر، کبھی موجودہ سیاسی جمود کو تھوڑ کر تبدیلی لانے کے نام پر تو کبھی ووٹ کو عزت دینے کے نام پر لیکن یہ شکلیں اور نام بدلتے رہیں گے اس وقت تک جب تک عوام اجتماعی شعور کے ذریعے ان سیاسی مسیحائوں کے اصل چہرے پہچاننے کا گر نہیں سیکھتے۔ ابھی حال ہی میں آئینی پیکیج کے نام پر عوام کے ساتھ جو بھونڈا مذاق کھیلا گیا وہ اس حقیقت کا ایک چھوٹا سا مظہر ہے۔ عوام نے دیکھا کہ کس طرح چھٹی والے دن پارلیمنٹ کا اجلاس بلاکر رات کے اندھیرے میں بل پاس کرنے کی سازش کی گئی۔ عوام اور سیاسی حریف تو کیا، حکومت کی جانب سے اس بل کی کاپیاں سیاسی حلیفوں تک کو نہیں دکھائی گئی۔ بشمول مولانا فضل الرحمن کے، جس سے بل کی حمایت کی درخواست کی گئی، ایم کیو ایم حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے شکوہ کیا گیا کہ ان کو جو کاپیاں دی گئی وہ اصلی نہیں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے مفاد میں کی جانی والی اس بل میں کیا عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ اس بل کو عوام کے سامنے رکھنے کی بات تو درکنار، پارلیمنٹ میں بیٹھے ان کے منتخب نمائندوں سے بھی چھپ چھپاکر بل کو پاس کرنے کی سازش کیا عوام اور ان کے ووٹ کو عزت دینا ہے؟ دوسری جانب ہمارے سیاسی مسیحاوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ وہ اس سازش میں سب کے سب برابر کے شریک ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ اس بل میں عوام کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے لیکن وہ ریاست کے مفاد میں اس بل کی حمایت کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جو جمہوریت کو ہمیشہ بہترین انتقام گردانتے رہے ہیں، اس بل کو پاس کروانے کے لئے مسلسل مولانا فضل الرحمن کے گھر کا طواف کرتے رہے۔ ایم کیو ایم کی تو بات ہی اور ہے۔ باوجود اس کے کہ فاروق ستار نے اسمبلی کے فلور پر اس بات کا اظہار کیا کہ بل کی کاپیاں ان کو نہیں ملی لیکن ”قومی مفاد”میں وہ اس بل کی مکمل حمایت کرتے رہے۔ اور جب مولانا فضل الرحمن کے فیصلہ کن ووٹ حکومت کو نہیں ملے تو متبادل طریقوں پر غور شروع کیا گیا۔
حیرت کی بات ہے کہ جہاں اس وقت ملک ایک بد ترین معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ، وہاں حکومت کو اس بحرانوں سے نکلنے کی بجائے ایک نئے آئینی بحران پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حکومت کا کام ہوتا ہے بحرانوں کو ختم کرنے کے لئے نت نئے راستوں کو تلاش کرنا لیکن یہاں حکومت خود ہی بحرانوں کو جنم دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ شاید اس لئے کہ بحران ہی ان کے لئے فائدہ مند ہیں۔ اگرحکومت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے راضی ہوجائے تو مذاکرات کی میز پر پہلا سوال ان کے حکومت کی قانونی جواز پر اٹھے گا۔ اسی لئے حکومت کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ بحرانوں کے ہوتے ہوئے مسئلے کو حل کئے بغیر سیاسی حلیفوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت عوام کی آواز کو دبانے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہی ہیں۔ حکومت کے لئے مسئلہ کیا ہے کہ وہ ملک اور پارلیمنٹ کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے سے روکے۔ اسلام آباد میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے بعد حکومت نے پی ٹی آئی کو لاہور میں جلسہ کے انعقاد سے روکنے کے لئے کم و بیش چار درجن شرائط پیش کئے لیکن جب پی ٹی آئی نے تمام شرائط کو ماننے کی حامی بھری تو ان سب کے باوجود ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ اکیس ستمبر کو لاہور میں جلسے کو ناکام بنانے کے لئے پورے شہر میں ناکہ بندی کی گئی تھی۔ شہر کی طرف جانے والے تمام ٹول پلازوں پر رکاوٹیں لگائی گئی تھیں اور شہر کے اندر کنٹینرز لگاکر عوام کو جلسہ گاہ میں جانے سے روکا گیا اور پھر رات کو ٹی وی سکرینوں پر حکومت کے ہرکارے آکر لوگوں کو خوش خبریاں دے رہے تھے کہ جلسہ ناکام ہوگیا اور عوام باہر نہیں نکلے ۔ اگرحکومت کو جلسے کی ناکامی کا یقین تھا تو پھر حکومتی ہرکاروں کی جانب سے عوام کو یہ بات بتانے کے لئے درجن بھر پریس کانفرنسوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا عوام اندھے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت سے اس ملک کی بہتری کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ حکومت کی یہی روش کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے