اردو سائنس بورڈ پھر سے فعال ہورہا ہے

قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن حکومت پاکستان کے نگرانی میں اردو سائنس بورڈ کسی زمانے میں ایک فعال ادارہ ہوا کرتا تھا ۔یہ ایک علمی سائنسی اور ادبی ادارہ ہے جس کا مقصد اردو میں سائنسی اور دیگر علوم کی ترویج و فروغ کرنا ہے۔آئین پاکستان میں اردو کو قومی اور دفتری زبان کا درجہ دیا گیا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے جب شریف کمیشن بنایا گیا تو اس کی سفارشات کی روشنی میں 1962 میں ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جسے مرکزی اردو بورڈ برائے ترقی کا نام دیاگیا جسے 1982 میں بدل کر اردو سائنس بورڈ کردیا گیا ۔اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اردو زبان کو اس قابل بنایا جاسکے کہ اس میں عصری و سائنسی علوم میں تدریس ممکن بنائی جاسکے اور اس حوالے سے کتابوں کی اشاعت کی جائے اور زبان کی ترقی کے لیے وہ تمام ممکنہ کام کیے جائیں جس سے اردو زبان دفتری اور سائنسی طور پر انگریزی اور دیگر بڑی زبانوں کے برابر آسکے اور اردو پڑھنے والوں کو وہ تمام معلومات اور ذخیرہ الفاظ اور وسائل دستیاب ہو ں جو جدید زبانوں کو حاصل ہیں ۔ اس کے ساتھ پاکستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی لغت تیارکرنے اور ان کو بھی ترقی دینے اور ان تمام اداروں کے ساتھ تعاون کرنے جو اس سلسلے میں کام کررہے ہیں کا اس ادارے کو پابند بنایا گیا تھا ۔پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ادارے تو بنا دئیے جاتے ہیں لیکن وہ اپنا کام پیشہ ورانہ ترتیب سے نہیں کرتے پھر ان اداروں کو چلانے کے لیے ماہرین کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ کسی شاعر یا ادیب کو اس کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ ادارہ جس مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے وہ فوت ہوجاتا ہے اور اس ادارے کی حیثیت یار دوستوں کی کتابیں شایع کرنے یا ان کی کتابوں کی تقریب رونمائی اور مشاعروں تک محدود ہوجاتا ہے ۔ یہی سب کچھ مقتدرہ قومی زبان ، اکادمی ادبیات ، اردو سائنس بورڈ اس نوع کے دیگر اداروںکے ساتھ ہوتا رہا ۔ ان اداروں کو ہر برس حکومت اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے کروڑوں روپوں کا بجٹ دیتی ہے مگر ان اداروں کے سربراہوں میںا ستعداد نہ ہونے کی وجہ سے یہ فنڈز خرچ ہی نہیں ہوتے ۔ ڈاکٹر یوسف خشک کے اکادمی ادبیات کے چند برسوں کے دورانیے نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اگر ایک فعال شخص کسی ادارے کا سربراہ بن جائے تو کتنی تبدیلی آتی ہے ۔ ان کے دور میںاکادمی ادبیات میں جان پڑ گئی کتابوں کی اشاعت میں تیزی آگئی تھی ، ادارے کے جرائد و رسالے متواتر اور موضوع وار چھپتے رہے ، ادیبوں ور شاعروں کو ان کا حق ملنے لگا ۔ دنیا کی دیگر ممالک کے اداروں اور ادیبوں اور حکومتوں کے ساتھ ارتباط میں اضافہ ہوا ۔ اس ادارے کے دیگر صوبوں میں ذیلی دفاتر اور مراکز کو تعمیر کیا گیا اور جو پہلے سے تھے ان کو فعال بنایا گیا ۔ اگر یوسف خشک کے دو برس کے ٹینور کو دیکھاجائے اور اس کے مقابلے سابقہ دو دہائیو ں کو دیکھا جائے تو ان کے دوبرس ان دو دہائیوں پر بھاری ہیں ۔ دنیا میں ادارے ہمیشہ اکیڈیمیہ کے ساتھ اشتراک کرکے کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اکیڈیمیہ سے ہم ہمیشہ دور بھاگتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکیڈیمیہ میں جو تحقیق ہورہی ہوتی ہے اور جو علمی ترقی پروان چڑھتی ہے وہ لائیربریوں میں ہی محفوظ رہتی ہے وہ دنیا تک نہیں پہنچتی اور اداروں میں تعینات لوگ ہر مہینے تنخواہ لے کر وقت پورا کرتے رہتے ہیں ۔ اگر یہ سارے ادارے اکیڈیمیہ کے تعاون سے اپنے اپنے مقاصد اور اہداف پورے کرنے کا سلسلہ شروع کریں تو اس کے دو فائدے ہوں گے ایک یہ ادارے جس مقصدکے لیے بنائے گئے ہیں وہ پورا ہوگا ۔ دوسرا اکیڈیمیہ میں جو تحقیق ہورہی ہے وہ دنیا کی دسترس میںآجائیگی اور ہم بھی اپنی ترقی کا سفر شروع کریں گے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں اس طرح کے ادارے ، انڈسٹری اور اکیڈیمیہ مل کرکام کرتے ہیں اور اس کے ثمرات آپ دیکھ رہے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی ان کی تقلید میں ان تینوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کردیں اور اس کے ثمرات پاکستان کی معیشت اور نظام کو پہنچائیں ۔ اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر ضیا ء اللہ طور و نے جو کام شروع کیا ہے یہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے و ہ پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں خود جارہے ہیں اور ان کے ساتھ ایم او یو کرکے اپنے وسائل اور خدمات ان کو پیش کررہے ہیں اور ان کو راغب کررہے ہیں کہ وہ طلبا ، اسکالر اور اساتذہ کر راغب کریں کہ اردو زبان کے اور کلچر کے حوالے سے اردو سائنس بورڈ کے ساتھ تعاون کریں اردو سائنس بورڈ ان کی کتابیںاور تحقیق کو شایع کرے گی اور ان تمام یونیورسٹیوں کی کتب خانوں میں اردو سائنس بورڈ کا ایک کارنر بنائے گی جس میں اس ادارے کی مطبوعات رکھی جائیں گی اور اس سے مستفید ہونیوالے بچوںکو اعزازی رسائل اور کتابیں بھی دی جائیں گی اور ان میں صحت مند ادبی اور لسانی قابلیت پیدا کرنے کے لیے مقابلے بھی کراوئے جائیں گے جس سے ان میں قومی زبان میں بولنے اور لکھنے کے جذبہ کو فروغ ملے گا ۔ یونیورسٹیوں میں ادب اور زبان سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک کارنر بنانے کا بھی ان کا پروگرام ہے جس میں ادیب اور زبان و ادب سے شغف رکھنے والے بیٹھ کر ادب اور زبان پر گفتگو کرسکیں گے اور ڈائیلاگ کلچر کو فروغ دیں گے ۔انہی کارنرز میں ملک کے ادبیوں اور دانشوروںکو مدعو کرکے طالب علموں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ لاہور شہر کو چھوڑ کر پاکستا ن بھر میں اب ادبیوں اور شاعروں کو کہیں بھی وہ ماحول میسر نہیںہے جہاں بیٹھ کر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کرسکیں اور عصری تنقیدی شعور کو فروغ دے سکیں ۔ ہم نے گزشتہ کچھ عرصے میں پناہ گاہیں اور لنگر تو کثرت سے بنائے مگر علمی ثروت مندی اور مکالمہ کی فضا پیدا کرنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں کی ۔ پہلے یونیورسٹیوں میں اور شہر کے مختلف حصوں میں لوگ ادبیوں ، شاعروں اور مفکروں کے پاس بیٹھ کر ان کے گیان و تجربے سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی ایسی کوئی محفل نہیں ملتی ۔ اگر اردو سائنس بورڈ اپنے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہناتی ہے تو اس سے ملک کے ان بڑے شہروں اور یونیورسٹیوں میں ایک علمی اور ادبی فضا بن جائے گی اور نوجوانوں کو ایک صحت مند مشغلہ ہاتھ آئے گا ۔ اور اردو زبان کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت اور دیگر زبانوں سے مفید تراجم بھی چھپ کر مناسب قیمتوں پر اگر طالب علموں اور عوام کو میسر آتی ہیں تو اس سے ہمارا علمی بانجھ پن دور ہوگا ۔ہمارے معاشرے کو اس وقت کتاب کی ضرورت ہے ۔ ہمارے معاشرے کو ادب و حکمت پر بات کرنے والے عالموں کی ضرورت ہے ۔اس لیے کہ کتاب ،عالموں اور مفکروں سے دوری نے معاشرے کو جنگل بنا دیا ہے ۔ ان کاموں پر مامور حکومتی ادارے جو اس کام کے لیے تنخواہ اور مراعات لیتے ہیںاور ان کاموں کے لیے انہیں ایک معقول بجٹ فراہم کیا جاتا ہے ان کو فعال ہونا پڑے گا۔ ورنہ یہ بدامنی ، بدانتظامی اور جہالت ہمیں دنیا سے دور لے جائے گی ۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟