پولیس اختیارات میں کمی

خیبر پختونخوا میں پولیس کو مثالی اختیارات دینے اور بااختیار بنانے کے جس عمل کی تحسین میں اس کی اعلیٰ قیادت سے لے کر وزیر اعلیٰ تک سبھی زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے اب وقت اور حالات نے پولیس کو اس طرح کے وسیع اختیارات کی تفویض نے خود اس کا فیصلہ کرنے والی جماعت اور حکومت ہی کو متاثرین کی صف میں لاکھڑا کر دیا اور ان کو اس پر نظر ثانی پر مجبور ہوناپڑااطلاعات کے مطابق پولیس کے لا محدود اختیارات کو محدود کرنے اور اسے حکومت کو جوابدہ بنانے کیلئے پولیس ایکٹ2017ء میں ترمیم لانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے اس قانون کے تحت پولیس کوحاصل اختیارات میں کمی کرنے کاعندیہ دے دیا گیا ہے جس کیلئے جلد اسمبلی میں ترامیم کا مسودہ بحث کیلئے پیش کیا جائے گا پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو پولیس کی جانب سے 9اور10مئی کے واقعات کے بعد پکڑ دھکڑ سے شکایات پیدا ہوئی ہیں اس لئے اب اس قانون میں دوبارہ ترامیم لانے پر غور کیا جارہا ہے۔کسی قانون میں ترمیم صوبائی حکومت کابینہ اور اسمبلی کا اختیار ہے اور وقتاً فوقتاً اور ضرورتاً ایسا ہوتا رہا ہے اس وقت مرکز میں بھی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پر معاملت ہو رہی ہے ہر دو ترامیم کے حوالے سے اور قانون سازی کرتے ہوئے اس امر کا خیال ضروری ہونا چاہئے کہ کوئی جذباتی قانون سازی کرکے بعد میں اس میں ترمیم پر مجبور نہ ہونا پڑے جو بھی قانون سازی ہو اس میں مفاد عامہ کومفاد حکومت و اہل سیاست پر ترجیح دی جائے اور حکومتی اکثریت کے بل بوتے پرحزب اختلاف کو نہ سننے اور ان کے اعتراضات کو یکسر رد اور مسترد کرنے کی غلطی نہ کرے بلکہ خوب سوچ بچار اور مشاورت کے بعد قانون سازی کی جائے تاکہ بعد میں خود اپنا ہی بنایا ہوا قانون خود کے گلے نہ پڑے اور پچھتانا پڑے۔پولیس کے اختیارات میں کمی ہی کافی نہیں بلکہ جواختیارات محولہ ترمیم سے قبل ہی پولیس کوحاصل تھے وہ بھی کچھ کم نہ تھے بہرحال اصل مسئلہ اختیارات کا نہیں اختیارات کے غلط استعمال کا ہے جس کی روک تھام پر توجہ زیادہ ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  ججز کے درمیان خلیج اور عدلیہ