قبضے سے اُمت بے چاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی

جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بہترین اُمت ہیں، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین ، مکمل اور محفوظ کتاب ہے اور ہمارے پاس دنیا کا سب سے بہترین اور سب سے افضل انسان سیدالانبیاء ، سرور کائنات اور رحمتہ للعالمین کی صورت میں موجود ہے تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اخلاق سب سے بہترین کیوں نہیں ہیں، یہاں انصاف کا بول بالا کیوں نہیں ہے، یہاں خوش حالی اور ترقی کیوں نہیں ہے، ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کے سیاسی نظام جیسا نظام کسی کے پاس نہیں ہے تو پھر ہماری سیاست ایسی کیوں ہے، ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کے اخلاقی نظام جیسا نظام کسی کے پاس نہیں ہے تو پھر ہم جھوٹ بولنے والے ممالک میں سرفہرست کیوں ہیں، اور جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کے معاشی نظام جیسا نظام کسی کے پاس نہیں ہے تو پھر ہمارا بال بال قرضے میں کیوں ڈوبا ہوا ہے، ہم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اسلام کے نظام عدل جیسا نظام کسی کے پاس نہیں ہے تو پھر ہماری عدالتیں عالمی درجہ بندی میں سب سے نیچے کیوں ہیں، ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کے دئیے ہوئے تعلیمی نظام کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی تو پھر آج ہم تعلیم کے میدان میں بھی اتنے پیچھے کیوں ہیں، ہم یہ بھی ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام دیا ہے تو پھر آج ہر قسم کی ذلت اور رسوائی ہماری خواتین کے مقدر میں کیوں ہے، کہیں تو ہم سے کچھ غلط ہو رہا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ آج دنیا میں مسلمان ہی وہ واحد خوش قسمت قوم ہیں جن کے پاس اللہ پاک کا کلام بالکل محفوظ، تحریفات سے پاک اور ٹھیک ٹھیک انھیں الفاظ میں موجود ہے جن الفاظ میں وہ نبی کریمۖ پر نازل ہوا تھا، لیکن دوسری جانب اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج اُمت مسلمہ دل سوز، پرآشوب، صبرآزما اور دل شکستہ مراحل سے گزر رہی ہے، اُمت مسلمہ کے قلب و جگر پر جس قدر جس تیزی اور جس منصوبہ بندی اور منظم سازش کے تحت حملے ہو رہے ہیں،اسلامی تاریخ میں شاید اس کی مثال نہ مل سکے، داخلی انتشار اور فرقہ واریت نے اُمت اسلامیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے، ہر جگہ بے چینی اور اضطراب ہے، آج مسلمانوں کے مال و متاع لوٹے جارہے ہیں اور ہمارے کارواں پر رہزن کا بسیرا ہے، انفرادی اور اجتماعی سطح پر اُمت کی عصمت و عفت کو تار تار کیا جا رہا ہے، آج دنیا میں مسلمان ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے پاس اس جامع ترین دستور الٰہی رکھنے کے باوجود اس کی خیرات و برکات اور بے پایاں نعمتوں سے محروم ہیں، قرآن مقدس انھیں اس لئے مرحمت ہوا تھا کہ اسے پڑھیں اور سمجھیں، اس کے مطابق عمل کریں اور اسے لے کر خدا کی زمین پر خدائی قانون کی حکومت قائم کریں، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کامیابی ہر بات میں مغرب کی اندھی تقلید میں ہے، حکیم الامت نے کیا خوب فرمایا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب انھوں نے کتاب الٰہی کی ہدایتوں پر عمل کیا تو اس نے انھیں دنیا کا پیشوا اور امام بنادیا، خلیفۂ وقت عمر فاروق کی امیر مکہ نافع بن عبدالحارث سے مقام عسفان میں ملاقات ہوئی تو ان سے دریافت فرمایا کہ اہل مکہ پر اپنی جگہ کسے امیر مقرر کرکے آئے ہو؟ نافع نے عرض کیا کہ ابن ابزیٰ کو، اس پر فاروق اعظم نے فرمایا کہ یہ ابن ابزیٰ کون ہے، نافع نے عرض کیا کہ میرے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے، آپ نے فرمایا تم نے اہل مکہ پر ایک غلام کو حاکم و امیر بنادیاہے، نافع نے جواب دیا کہ میں نے ایسا ہی کیا ہے کیوں کہ وہ قرآن کا قاری اور فرائض و علوم قرآنی کا عالم ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ نبی برحقۖکا یہ ارشاد بالکل برحق ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے لوگوں کو بلند اور پست کر دیتا ہے، (مسلم)، اور اللہ پاک کا ارشاد مبارک ہے کہ اور تم کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تمہارے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے آتی ہے اور اللہ بہت سے لوگوں کو معاف ہی کر دیتا ہے، تم زمین میں بھاگ کر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی حامی و مدد گار نہیں ہوگا، (الشوریٰ)قارئین کرام! اس وقت مسلمان دنیا کی کُل آبادی کا چوتھا حصہ ہیں جو کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں، اسلامی تعاون تنظیم کی معیشت جو ستاون مسلم رکن ممالک پر مشتمل ہے، کا مشترکہ جی ڈی پی یعنی خام ملکی پیداوار چوبیس ٹریلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے، عالمی سطح پر سب سے بڑا تعلیمی نظام امریکہ کے پاس ہے، جس میں اعلیٰ تعلیم کے چار ہزار سے زیادہ ادارے ہیں، عالمی درجہ بندی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین جامعات انہی کے پاس ہیں، بین الاقوامی سطح پر گردش کرنے والے سائنسی جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کے اقتباسات کے تناسب سے اکتالیس مسلم ممالک جو کہ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً بیس فیصد ہیں لیکن سائنس اور عملی تحقیق کے میدان میں ان کا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے، او آئی سی کے صرف تین سائنسدانوں یعنی پاکستان سے ڈاکٹر عبدالسلام ، مصر سے پروفیسر احمد زیویل اور ترکی سے عزیز سنکار نے اپنے اپنے شعبوں میں نوبل انعام حاصل کیا تھا، اسلامی ممالک کا رقبہ چھبیس ملین مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، جبکہ اسرائیل کا رقبہ مسلم دنیا کے کل رقبے کا صرف صفر اشاریہ صفر آٹھ فیصد ہے اور مسلم دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں اسرائیل کی آبادی صفر اشاریہ صفر صفر پانچ فیصد ہے اور دیکھیں ہماری بے بسی اور ذلت اور رسوائی، ہمارے لئے حسن نصر اللہ اور اسماعیل ہانیہ شیعہ اور سنی ہیں لیکن اسرائیل کے لئے حماس، حزب اللہ سب ایک ہیں، میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے بلکہ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مسائل کا حل ہے اور نہ درست سمت کا تعین ،آپ تجربے کے طور پر کسی سے بھی یہ پوچھ کر دیکھ لیں کہ امت کو اس زوال سے کیسے نکالا جائے تو جواب سن کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں، یہ کس قدر محرومی اور بے شرمی کی بات ہے کہ جس اُمت کے پاس ایک مستقل نظام، فکر و عمل اور ایک مکمل نظام تہذیب وتمدن ہے لیکن آج اس کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے اور اسی لئے شاعر مشرق نے فرمایا تھا کہ
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
قبضے سے امت بے چاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی

مزید پڑھیں:  بجلی کی قیمتوں میں کمی کی یقین دہانی