اسرائیل ایران کشیدگی

حزب اللہ نے لبنان میں سرحد پر جھڑپوں کے دوران17اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔تاہم، اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان پر حملے کے بعد سے اب تک صرف 9جنگی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ لبنان کے گروپ حزب اللہ کے درمیان سرحدی علاقے میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران یہ حالیہ عرصے میں اسرائیلی فوج کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان تھا۔ جس سے اسرائیلی افواج کی لبنان کے اندر زمینی کارروائی کی پہلی بار تصدیق ہوئی ہے۔محولہ واقعات معمول کے جنگی واقعات ہیں جبکہ اصل سوال اور انتظار اس بات کا ہے کہ اسرائیل ایرانی میزائل حملوں کاجواب کہاں اور کس طرح دیتا ہے۔ ایران کی جانب سے پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ اس کا انتقام ان حملوں سے پورا ہو چکا ہے اور اسرائیل کی جانب سے کسی ممکنہ جواب کا تہران سخت ردعمل اور جواب دے گا ۔ ایران اسرائیل کشیدگی کے ا ثرات سے اب امریکی انتخابات کاماحول بھی متاثر ہو رہا ہے اور اس کے اثرات امیدواروں کی انتخابی مہم پر بھی مرتب ہونے لگے ہیں کہا جارہا ہے کہ ان حالات میں جوبائیڈن کی جگہ ٹرمپ صدر امریکہ ہوتے تو نہ صرف اسرائیل کا معاملہ بلکہ روس ، یوکرائن جنگ کا بھی نقشہ مختلف ہوتا بہرحال اسرائیل کا سرکش گھوڑا اب امریکہ اور برطانیہ کے گلے پڑنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو اسرائیل آنے سے روکنے کا عمل بھی عالمی سطح پر سبکی کا باعث امر ہے لبنان سے غیر ملکی شہریوں کا انخلاء تیزی سے جاری ہے تاہم زمینی طور پر اسرائیل کو پیش قدمی میں ناکامی اور پسپائی و واپسی کے بعد اب فضائی او رمیزائل باری میں شدت لانے کا حربہ ہی رہ گیا ہے اسرائیلی فوجی جس طرح پیچھے ہٹے وہ اسرائیل کیلئے دھچکا سے کم نہیں تھا۔حالیہ کارروائیوں نے مشرق وسطی کو علاقائی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسرائیل نے تمام ریڈ لائنز عبور کرلی ہیں جبکہ جنگ بندی کے تمام منصوبوں کو بھی خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اسے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ایران کی اسٹرائیک کے بعد بیان بازی کے سلسلے میں تیزی آئی ہے جبکہ اسرائیلی رہنمائوں نے ایران کے جوہری اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ ایسی کوئی کارروائی بڑی غلطی کی جانب پیش قدمی ہوسکتی ہے۔اس وقت جس عنصر کی ضرورت ہے وہ تنائو کم کرنے کے لیے لبنان اور غزہ میں جاری وحشیانہ مظالم کو فوری طور پر لگام دینا ہے۔ لیکن امریکا اور برطانیہ جس طرح اپنے اتحادی کو روکنے کے بجائے اسے مزید بڑھاوا دے رہے ہیں، ایسے میں اس خطرناک تنازع کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جانا انتہائی مشکل ہے۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟