بلاول کی آئینی ترامیم کی مخالفت

بلاول کی فوجی عدالتوں اورمخصوص نشستوں سےمتعلق آئینی ترامیم کی مخالفت

ویب ڈیسک: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں سے متعلق حکومتی آئینی ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کہا سیاست میں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔
زرداری ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم پر ڈیڈ لائن اور ٹائم فریم ہمارا نہیں حکومت کا مسئلہ ہے حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے مگر آئینی ترمیم پر اتفاق رائے چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی کوشش تھی کہ آئینی ترامیم پر مولانا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے،جو مرضی چیف جسٹس آ جائے ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔
چیئرمین پی پی نے مزید کہا کہ جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے،بات چیت کے بعد جو سامنے آئے گا وہ ترمیم لائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پرمولانا مان گئے تھے حکومت آرٹیکل 8اور آرٹیکل 51میں فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں سے متعلق ترامیم لے آئی جس پر پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں پر ترامیم سے انکار کردیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور اس کی جماعت کو ہر ایشو موقع دیا لیکن انہوں نے غیر سنجیدگی دکھائی، بانی پی ٹی آئی اگر اپریل 2022سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے، مجھے تو عمران کا کوئی سیاسی مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم نے سیاسی اتفاق رائے کیلئے کمیٹی بنائی پی ٹی آئی نے اس کا بھی بائیکاٹ کردیا، جب تک نیب ہوگا ملک میں سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتوں کا چھٹی کے دن آرڈر آیا جس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا، ہم عدالتی اصلاحات چاہتے ہیں اور صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں قائم ہوں اس سے عوام کو فوری ریلیف ملے گا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ صوبوں میں آئینی عدالتوں والا معاملہ آج طے نہ بھی ہوا تو یقین ہے ایک دن ضرور ہوگا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اعلی عدالتوں میں تقرریاں عدلیہ ، پارلیمنٹ اور وکلا کی نمائندہ کمیٹی کے ذریعے ہونی چائیں، جو مرضی چیف جسٹس آجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن افتخار چوہدری جیسا طرز عمل نہیں ہونا چاہیے، جسٹس منیب نے 63اے کے فیصلے میں اپنا ذہن واضح کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں:  امریکہ کا پاکستان سے انسانی حقوق، بنیادی آزادی کےاحترام کا مطالبہ