pandora box

پنڈورا باکس کھل گیا، 700 پاکستانی بھی بے نقاب

ویب ڈیسک :پانامہ پیپرز کے بعد نئے مالیاتی سکینڈل پنڈورا پیپرز کی تفصیلات جاری کردی گئی ہیں جس کے مطابق700پاکستانی اس مالیاتی سکینڈل میں ملوث ہیں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں۔

ان افراد میں شامل نمایاں ناموں میں وزیر خزانہ شوکت ترین، سینیٹر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر مونس الہی، پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن، اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار، خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار، راجہ نادر پرویز، سینئر وزیر عبدالعلیم خان، سابق معاون خصوصی وزیراعظم وقار مسعود کے بیٹے کا نام بھی شامل ہے۔سکینڈل میں ابراج گروپ کے سی ای او ، ایگزٹ کمپنی کے مالک سمیت متعدد بینکار اور ریٹائرڈ فوجی افسران کے نام بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ یوکرین ،کینیا، اور ایکواڈور کے حکمرانوں ،اردن کے بادشاہ عبداللہ اورقطر کے حکمرانوں کے نام پر بھی آف شور کمپنیاں نکل آئیں جبکہ چیک ری پبلک اورلبنان کے وزرائے اعظم آف شورکمپنیوں کے مالک ،سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نام بھی آف شورکمپنی جبکہ گلوکارہ شکیرا، سابق بھارتی کرکٹرسچن ٹنڈولکر کے نام بھی آف شورکمپنی رجسٹرڈ ہے ، روس اور آذربائیجان کے صدور بھی آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے۔

مزید پڑھیں:  حقوق نہ ملے توچھیننابھی جانتے ہیں،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

پنڈورالیکس میں مریم نوازکے داماد،جہانگیرترین،وقارمسعود،شعیب شیخ،عدنان آفریدی،عباس خٹک کابھی نام آیاہےد وسری طرف وزیراعظم عمران خان نے پنڈوراپیپر میں شامل پاکستانیوں سے تحقیقات کا اعلان کردیا۔

ٹوئٹر پرجاری بیان میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پنڈورا پیپرز کا خیر مقدم کرتے ہیں، پنڈورا پیپرز اشرافیہ کی ناجائز دولت کو بے نقاب کرتے ہیں،ٹیکس چوری اور بدعنوانی سے جمع دولت مالیاتی پناہ گاہوں میں پہنچ جاتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے چوری شدہ اثاثوں کا تخمینہ7ٹریلین ڈالر لگایا ہے، یہ دولت بڑے پیمانے پر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کی گئی۔

مزید پڑھیں:  کوئی ایمنسٹی سکیم نہیں ،ٹیکس دینا پڑیگا:وفاقی وزیر خزانہ

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میری حکومت پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی، اگر کوئی غلطی ثابت ہوئی تو مناسب کارروائی کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر دنیا کی اشرافیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح دولت لوٹ رہی ہے،میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس سنگین ناانصافی کو موسمیاتی تبدیلی کے بحران کی طرح سمجھیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سےامیر اور غریب ریاستوں کے درمیان عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں غربت میں اضافہ ہوگا اور غریب سے امیر ریاستوں کی جانب روزگار کے لیے نقل مکانی کا سیلاب آئیگا جس سے دنیا بھر میں مزید معاشی اور سماجی عدم استحکام پیدا ہوگا۔