الیکشن کمیشن کے قوانین کامذاق

وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر دو ہفتوں کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے چوتھی مرتبہ نوٹس کا اجراء جہاں الیکشن کمیشن کی قوانین کے مطابق عمل ہے وہاں الیکشن کمیشن کی بے وقعتی اور کمزوری بھی عیاں ہے اس لئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسے اختیارات موجود نہیں کہ ایک مرتبہ خلاف ورزی کے بعد دوسری ‘ تیسری مرتبہ اسی فعل کے ارتکاب پر قوت نافذہ کے ذریعے کوئی کارروائی کر سکیں وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے حکمران ہونے کے ناطے قوانین پر عملدرآمد کی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر حکومتی عہدوں پر براجمان شخصیات ہی قانون سے کھلواڑ کرنے لگیں تو کسی اور سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے احکامات کی خلاف ورزی میں حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی کسی سے پیچھے نہیں حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ملاکنڈ میں جلسے کا انعقاد کرکے الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں یہ ایک ایسا رویہ اور عمل ہے جس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس کی گنجائش ہونی چاہئے اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ وطن عزیز میں قانون کو جوتی کی نوک پر رکھنے کو اب معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا اور دھڑلے سے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے یہ ایک قابل فکر امر ہے جس پر غور ہونا چاہئے اور سیاسی عمائدین کو اپنے کردار و عمل سے قانون کا احترام کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔جہاں تک قوانین کی بات ہے تو قانون بظاہر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر زیادہ سے زیادہ50ہزار روپے جرمانے کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ صرف پہلی بار خلاف ورزی تک ہی محدود ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کے قوانین کواب سخت سے سخت تر کرنے کی ضرورت ہے اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے آئینی ادارے کو نمائشی اختیارات اور خود مختاری دینے کی بجائے مکمل طور پر بااختیار بنانے کی ضرورت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ کسی ضلعے میں اگر انتخابی قوانین اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن کو یہ اختیارحاصل ہو کہ وہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو حکم دے کر سرکاری مشینری کے ذریعے خلاف ورزی کو روکوا سکے نیزامیدواروں کو نااہل قرار دینے کے حوالے سے بھی قوانین مزید سخت کئے جائیں۔
سیاست میں خود کش حملہ نہیں کیا جاتا
ذمہ دار سیاسی قائدین کی جانب سے یکے بعد دیگرے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی خواہش سیاست میں تشدد کے رجحان کی نشاندہی ہی نہیں کرتا بلکہ سیاست کو دہشت گردی کے برابر لاکھڑا کرنے کے مترادف امر ہے حیرت کی بات ہے کہ حکومت میں شامل اور خود کو سیاستدان قرار دینے والوں کی سوچ اور دہشت گردوں کی سوچ برابر ہوگئی ہے خود کش حملہ صرف دین اسلام میں حرام کام نہیں بلکہ کسی بھی اخلاقی اور تمدنی معاشرے میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیںسیاست اصولی طور پر تو عوام اور ملک و قوم کی خدمت کا نام ہے اگر اسے مروجہ سیاسی تناظر میںمحض حصول اقتدارکی جنگ بھی قرار دیا جائے تو بھی حصول اقتدار کی جنگ میں خود کش حملے اور پارلیمنٹ کو آگ لگانے کی نوبت کسی صورت بھی نہیں آسکتی اقتدار اور حکومت آنی جانی چیز ہے اس راستے میں مشکلات اور مسائل بھی پیش آتی ہیں جن سے گھبرا کر کوئی ایسی جذباتی بیان نہ دیا جائے جو گلے کا طوق بن جائے اور سیاست و جمہوریت الگ سے بدنام ہو۔
عوامی عدم اعتماد سے بچئے
پشاور میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی جہاں ایک جانب بجلی اور گیس کی اضافی لوڈ شیڈنگ سے عوام نالاں ہیں وہاں صوبائی دارالحکومت میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کے باعث شہری دہری مشکلات کا شکار ہیں حکومتی دعوئوں اور یقین دہانیوں کے باوجود مارکیٹ سے سرکاری کوٹہ کا آٹا نا پید ہو چکا ہے ۔ دودھ ‘ دہی اور گوشت کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیاگیا ہے اس کے باوجود ضلعی انتظامیہ کا خاموش تماشائی بننا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا عمل حکومت کی کارکردگی اور حکومت کے حوالے سے جس طرح منفی رائے کا باعث بن رہا ہے اس سے حکومت کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی یہ بات تو درست ہے کہ صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں لطیفہ ہے لیکن مہنگائی کے باعث حکومت پر عوام کا عدم اعتماد لطیفہ نہیں سنجیدہ معاملہ ہے جس کا اگر وزیراعلیٰ سخت انتظامی احکامات کے ذریعے تدارک نہ کروا سکیں تو ایوان کے اندر بلاشبہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے یا نہ آئے عوام کی سطح پر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام نہیں ہوگی۔اب یہ وزیراعلیٰ پر منحصر ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پھلوں کی دکان پرسجے چھلکے