سیاسی قائدین معاملات کو تصادم کی طرف نہ لے جائیں

پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ چونکہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں کامیابی حاصل کر چکی ہے لہٰذا حزب اختلاف کو ایسے پاور شو کے انعقاد کی ضرورت نہیں ہے۔قبل ازیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل بڑھتی ہوئی انتشار پسندی پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور تحریک انصاف اور پی ڈی ایم دونوں سے اپنے پاور شوز منسوخ کرنے کی بھی درخواست کی تھی لیکن قافلے اسلام آباد کی طرف چل پڑے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے اس حوالے سے پیشرفت کے بعد جلسے جلوسوں کا انعقاد کرکے ماحول کو کشیدہ بنانے کی ضرورت نہ ہونے کے حوالے سے جن آراء کا اظہار کیا جارہا ہے ا س سے انکارممکن نہیںاصولی طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس ہی میں صورتحال کا فیصلہ ہونا ہے ایسے میں حکومت کا اسلام آباد میں آج کا جلسہ اور اگلے روز حزب اختلاف کا سیاسی اجتماع سوائے کشیدگی بڑھانے اور خدانخواستہ تصادم کی صورتحال پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے اس لئے کہ آج اسلام آباد میں اجتماع کے بعد ضروری نہیں کہ کارکنوں کی واپسی فوری اور اسی وقت ہو بلکہ اس میں یقینا وقت لگ سکتا ہے جبکہ ان کی موجودگی ہی میں حزب اختلاف کارکنوں کا اسلام آباد میں داخلہ یا پھر راستے میں آمنا سامنا ہو سکتا ہے ۔اس امر کا خطرہ اور خدشات اس لئے بھی بے جا نہیں کہ سیاسی قائدین کی جانب سے جلسوں میں ایک دوسرے کو جن برے ناموں سے پکارا جانے لگا ہے اس سے بھی ماحول میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے نیز سوشل میڈیا بھی جلتی پر تیل کا کام کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں منفی سیاست نہ پارلیمان کے اندر ہونی چاہئے نہ باہر خواہ معاملہ تقاریر کا ہو یا جلسوں کا ٹاک شوز ہوں یا سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہر سیاسی جماعت کو اپنا پروگرام پیش کرکے فیصلہ عوام پر چھوڑنا چاہئے یہی جمہوریت اور مثبت سیاسی اصول ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں مثبت سیاست کی جگہ منفی جذبات اور سیاست نے لے لی ہے جو کسی بھی سیاسی رہنما اور جماعت کو زیب نہیں دیتا۔ سماج میں تلخیاں بھر دینا کوئی سیاست نہیں اور نہ ہی ایک دوسرے پر شخصی اور ذاتی نوعیت کے الزامات کی سیاست کی گنجائش ہونی چاہئے اب جبکہ حکومت اور حزب اختلاف ایوان کے اندر اور سڑکوں پر مدمقابل ہیں ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ اسی ہفتے ہونا ہے جس سے قطع نظر سڑکوں پر جو صورتحال ہے اس میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے سے قطع نظر ہر دو جانب سے تیاری نظر آتی ہے جس سے ممکنہ طور پر سیاسی ماحول میں تلخی اور خدانخواستہ تشدد تک کی نوبت آسکتی ہے ۔گیند اس وقت سیاسی رہنمائوں کے پاس ہیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی پارلیمانی رہنمائوں کو اس امر کا احساس بار بار دلایا گیا ہے کہ وہ اپنی پارلیمانی مسائل پارلیمان ہی میں طے کریںلیکن سڑکوں سے لیکر عدالتوں تک ہر جگہ سیاسی معاملات ہی کاغلبہ ہے ایسے میں کسی اور کی نہیں بلکہ یہ سیاسی حلقوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھنے نہ دیں اور ہوش مندی کا مظاہرہ کریں ۔ہمارے تئیں سیاست کا جو نیا چہرہ اور جو نئی تشریح ان دنوں پاکستان میں ہورہی ہے یہ کسی طور بھی سیاسی اخلاقی اور جمہوری طور پر مناسب نہیں۔موجودہ سیاسی صورتحال کے صرف اسی پہلو کی حمایت کی جا سکتی ہے جو آئین اور قانون کے دائرہ کار کے اندر اور پرامن و شائستہ طور پر ہوماورائے آئین اور خلاف قانون امور کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جا سکتی خواہ وہ ارکان پارلیمان کی حمایت بذریعہ ناجائز اسباب حاصل کرنے کا عمل ہو یا سیاسی رہنمائوں کی آپس میں چپقلش اور تصادم پر مبنی حالات پیدا کرنادونوں طرف کے سیاسی رہنمائوں کا شمار جغا دری سیاستدانوں میں ہوتا ہے ان کو حزب اختلاف اور حکومت دونوں کا تجربہ ہے ملکی قانون اخلاقی حدود اور علاقائی و عالمی رجحانات کا بھی ان کو بخوبی اندازہ ہے ایسے میں ان کو یہ سمجھانے کی ہر گز ضرورت نہیں کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ پذیر نہ ہونے کے اسباب کیاہیں انہیں صورتحال کا پوری طرح علم اور ادراک ہے اس کے باوجود سیاستدانوں کی جانب سے جس قسم کے کردار وعمل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے ۔دیکھا جائے تو پی ٹی آئی طویل اننگز کھیلنے کا ارادہ کر چکی ہے اور تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کے بعد وہ سڑکوں پر ہو گی جبکہ حکومت میں آنے والے شاید ہی تحمل کا مظاہرہ کر سکیں گے اس لئے کہ گزشتہ انتخابات کے بعد سے اب تک جس طرح کی سیاسی صورتحال چلتی آرہی ہے اس سے تحمل و برداشت کی فضا باقی نہیں رہی اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی ہنگامہ آرائی کے حالات کو جلد از جلد معمول پر لایا جائے جو سیاسی قائدین کے ہوش کے ناخن لئے بغیر ممکن نہیں یہ بات مشکل ہی نظر آتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی ہر دو صورتوں میں مبنی برکشیدگی صورتحال میں کمی آئے گی بلکہ اس میں اضافے ہی کا خطرہ ہے ایسے میں زیادہ سے زیادہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنے اور مثبت انداز فکر اپنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟