امر بالمعروف بمقابلہ نہی عن المنکر

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد دارالحکومت اسلام آباد میں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے۔ ستائیس مارچ کوحکومت نے ڈھول کی تاپ پر ناچنے والوں کو پریڈ گرائونڈ میں جلسہ گاہ کی زینت بناکر امر بالمعروف کے نام سے ان کے مطابق لاکھوں کا جلسہ منعقد کرکے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اگلے ہی دن حکومت کو منکرات سے منع کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے ایچ نائن سیکٹر میں پنڈال سجاکر نہی عن المنکر کا اہم فریضہ نبھایا۔ اسی دوران لاہور سے براستہ گوجرانوالہ پہنچنے والی مریم نواز نے اپنے چچا زاد حمزہ شہباز کو ساتھ لے حکومت کو خدا حافط کہنے کے لئے گزشتہ رات اپنی سیاسی فتح کا اعلان کردیا۔ لیکن ڈرائنگ روموں میں سیاسی منظرنامہ مسلسل تبدیل ہوتا رہا۔وفاقی دارلحکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی دارلحکومتوں میں سیاسی رہنماوں کے ضمیر مسلسل جاگتے اور سوتے رہے۔وسیم اکرم پلس کو بہترین وزیراعلی قراردینے والے عثمان بزدار کو وزیراعظم نے ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہٹاکر اس بندے کو عوامی خدمت کے لئے منتخب کیا جسکو وزیراعظم خود ڈاکو اور چور قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن جس وقت پرویز الہی نے ملک و قوم کی خاطر بڑے سوچ وبچار کے بعد اس عوامی بوجھ کو اپنے کندھوں پر لینے کا عہد وپیمان کیا، عین اسی وقت انکے ایک اہم تحادی رکن اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی ضمیر جاگ اٹھی اور انہوں نے دو ٹوک انداز میں وزیر اعظم کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزارت سے استعفی بھی دے دیا۔ جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی جو ابھی تک حکومت میں وزیراعظم کے مشیر کے طور پر عوامی خدمت کررہے تھے اچانک چونک اٹھے اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مخالفین کی صف میں جا بیٹھے۔ دوسری طرف بلوچستان عوامی پارٹی کا ضمیر بھی خیر سے اسی دن جاگنا تھا۔ انکے چار نمائندوں نے اپوزیشن کے ساتھ جانے میں عافیت جانی لیکن زبیدہ جلال نے حکومت کے ساتھ جانے کا اعلان کرکے زندہ دلی کا ثبوت دیا ہے ایم کیو ایم کا فیصلہ ابھی آگیا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے ضمیریں یوں ہی جاگتی اور سوتی رہی اور ضمیروں کے سودے یوں ہی ہوتے رہے اور ان سودوں کے لئے اسلام آباد کے سندھ ہاوس کو بہترین منڈی قراردیا جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف عوامی نمائندوں پر ضمیر فروشی کے الزامات لگانے والے وزیراعظم نے پریڈ گراونڈ میں جلسے کے دوران رات کے اندھیرے میں ایک خط لہراتے ہوئے کہا کہ انکو ایک دھمکی آمیز خط ملا ہے جس میں انکی حکومت کو گرانے کی سازش کی جارہی ہے، وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسی سازش میں پاکستان کے کچھ سیاسی اداکار شامل ہیں جوغیروں کے ساتھ مل کر انکی حکومت کا دھڑن تختہ کرانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک منتخب حکومت کے خلاف باہر سے اتنی بڑی سازش کی جارہی ہے تو حکومت اس سازش کو بے نقاب کیوں نہیں کررہی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ایسی کوئی سازش ہورہی ہے تو وزیراعظم اس خط کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی منڈیاں ملک میں پہلی بار نہیں لگ رہی۔ ہم نے ماضی میں کئی بارایسی منڈیاں لگتے دیکھی ہیں جہاں ضمیر کے سوداگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر عوامی ضمیر کو بیچتے اور خریدتے رہے ہیں۔ اور یہ کھیل تب تک کھیلا جائے گا جب تک خودعوامی ضمیر جاگ نہ اٹھے۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو انکے سیاسی مسیحاوں نے مختلف ناموں سے لوٹا ہے۔ کسی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کے نام پر تو کسی نے صوبائی عصبیت کے نام پر، کبھی ووٹ کی عزت کے نام پر تو کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی قوم پرستی کے نام پر لیکن استحصال ہمیشہ اسی غریب کا ہوا ہے جنکے سروں پر پاوں رکھ کر انکے سیاسی رہنما اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن جن سیاسی رہنماوں کے بھی ضمیر جاگے ہیں کیا ان میں سے کسی ایک بھی پارٹی یا فرد نے عوام کی عدالت میں جاکر ان کی رائے لی ہے کہ وہ فلاں پارٹی کو چھوڑکر فلاں پارٹی کے ساتھ نیا اتحاد بنا نے جارہے ہیں۔ عوام کے ساتھ یہ سیاسی کھیل اور ڈرامے مختلف ناموں سے تب کھیلے جاتے رہیں گے جب تک عوام میں سیاسی شعور بیدار نہیں ہوتا۔ ان سیاسی رہنماوں کی اصل طاقت عوام ہیں۔ عوام کے سروں کے اوپر شطرنج کا کھیل کھیلنے کے لئے بیٹھے ان سارے کھلاڑیوں کا کھیل اسی دن ختم ہوجائے گا جب نیچے سے دبے عوام اوپر اٹھنے کے لئے اجتماعی سوچ پیدا کریں۔

مزید پڑھیں:  محرم الحرام۔۔ احتیاطی تدابیر