پاکستان کے سیاسی بحرانوں کا بارہواں کھلاڑی

بھارت کا میڈیا یوں تو پاکستان کے ہر سیاسی بحران میں دھمالیں ڈالتا ہوا سامنے آتاہے مگر جب بات سول ملٹری کشمکش کی ہو تو بھارت کا میڈیا چنگاری کو شعلہ اور رائی کو پہاڑ بنانے کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمت اور کشیدگی کی پوری تاریخ میں بھارت کے میڈیا کا یہ رول اپنانا قطعی ناقابل فہم نہیں۔بھارت کا میڈیا ہر دور میں سول ملٹری کشمکش میں سویلین کردار کا یوں ہمدرد ،مونس اور غم خوار بنتا ہے کہ وہ خود اپنے ملک میں کئی سوالات اور شکوک کی زد میں آتا ہے۔بھارتی میڈیا کی طرف سے کسی شخصیت کی تعریفوں کے پُل باندھے جائیں تو اسے پاکستان میں مشکوک بنانے کے لئے یہی کافی ہوتا ہے ۔اس پر” ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو”کا مصرعہ ہی صادق آتا ہے۔بھارتی میڈیا کو ایسی ہر کشمکش میں ایک ولن اور ایک ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کا دوطرح سے فائدہ ہوتا ہے ۔ایک تو کوئی شخصیت واقعی اس توصیف وتعریف سے متاثر ہوکر مزید انقلابی بننے کی راہ پر چل پڑتی ہے۔یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے فاصلے مزید بڑھ جاتے ہیں۔میاں نوازشریف کی فوج کے ساتھ ہر کھٹ پھٹ میں بھارتی میڈیا یہ کھیل کھیلتے ہوئے فوج کے ساتھ ان کی مستقل آویزش کا تجربہ اور بندوبست کرچکا ہے۔آصف زرداری کا مزاج کچھ مختلف ہے وہ دوقدم آگے ایک قدم پیچھے ہٹنے والے شخص ہیں ۔کام ہوا ہو ا نہ ہوا تو ان کی بلا کی ۔وہ کسی کام کو حرز جاں نہیں بناتے ۔اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگایا چند ماہ بعد پھر اپنی رائے سے رجوع کرلیا ۔اس لئے فوج کے ساتھ ان کی کشیدگی کا جام کبھی چھلکنے نہیں پایا۔میموگیٹ سیکنڈل ہوا تو حسین حقانی کی سفارت کی قربانی دے کر دامن چھڑا لیا۔بھارتی میڈیا کا مقصد کسی شخص کی حمایت نہیں بلکہ خلیج اور عدم استحکام کو گہرا کرنا ہوتا ہے۔جب سے پاکستان کے موجودہ نظام میں سول ملٹری کشمکش کی باتیں عام ہوئی ہیں بھارتی میڈیا خاصی مشکل میں ہے ۔سویلین حکمران کے طور پر انہیں عمران خان کی حمایت کرنی چاہئے ان کی مظلومیت اور بہادری کے قصے لکھنے چاہئے تھے مگر وہ یہ لائن لینے سے رہے ۔ایسا ہی ایک دلچسپ مضمون بھارتی میگزین ”دی پرنٹ ” میں پروین سوامی نے لکھا ہے ۔جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ عمران خان حکومت کا خاتمہ جمہوریت کی نہیں چند جرنیلوں کی فتح ہوگی۔اس عنوان میں بظاہر عمران خان کی حمایت کا تاثر دیا گیا مگر آگے چل کر وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھارت کے ساتھ امن کا معمار اور کشمیر میں دہشت گردوں کو لگام ڈالنے والا قرار دے رہے ہیں ۔پروین سوامی اس مضمون کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے سٹینلے والبرٹ کی کتاب کے حوالے سے کیا گیا ہے کہ جس میں ایک واقعے کو ذوالفقار علی بھٹو اور انہی کے مقررکر دہ آرمی چیف جنرل ضیاالحق کے درمیان تلخی کی ابتدا قراردیا گیا ہے ۔جس کے مطابق او آئی سی کی ایک تقریب میں بھٹو نے ضیاء الحق کو غیر مناسب نام دے کر بلایا ۔فوج کے سربراہ نے اس توہین کو فراموش نہیں کیا۔اس کے بعد سول ملٹری کشمکش کے مختلف ادوار پر بات کی جاتی ہے یہاں تک نوازشریف جو خود فوج کے تراشیدہ تھے جنرل جاوید ناصر کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقر ر کرنے پر فوج کے مدمقابل آگئے اور یوں پھر ان کے ساتھ کشیدگی کا سلسلہ ختم نہ ہو سکا۔اب ایک طرف عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو جمہوریت کی بجائے چند جرنیلوں کی فتح کہہ کر ایک طرف عمران خان کی حمایت کا تاثر دیا جا رہا ہے اور ان کے ممکنہ جانشین ( شہباز شریف ) کو پہلے سے زیادہ بے شناخت قراردے رہا ہے تو دوسری طرف یہ جنرل باجوہ کو بھارت کے ساتھ امن کا معمار قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ایک قاصد کے ذریعے انہوں نے امن کی خاطر بھارتی قومی سلامتی کے مشیر جیت دووال سے بیک چینل رابطہ رکھا اور طے کیا کہ کشیدگی کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ پروین سوامی لکھتا ہے کہ نیا وزیر اعظم اگر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع بھی کرتا ہے تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی انڈیا پالیسی کتنی پائیدار ہوگی۔ جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان ”پیس ڈیل” کا مستقبل کیا ہوگا ۔یہ ڈیل جہادیوں کو مشتعل کر سکتی ہے اور اس طرح امن مذاکرات کا پروسیس برباد ہو سکتا ہے۔اس طرح بھارتی میڈیا بہت مہارت سے پاکستان میں کئی شکوک وشبہات بھی پیدا کر رہا ہے اور رائی کا پہاڑ بھی بنا رہا ہے ۔پاکستان کے ذمہ داروں کو بھارت کی ان چالوں کو سمجھنا چاہئے اور پاکستان میں عدم استحکام کی ہر کوشش کو مل جل کرناکام بنانا چاہئے ۔دشمن کا کام ہی اختلاف وانتشار پیدا کرنا ہے۔وہ بھیس بدل کر ہمدردی کا چولا پہن کر یہ کام کر تا ہے۔

مزید پڑھیں:  دھماکوں کے واقعات