مشرقیات

مڈل کلاس کے لوگ کریں بھی تو کیا ؟ ہر کوئی چاہتا ہے کہ افطار کے وقت وہ اپنے اہل خانہ کے لیے دستر خوان کو اللہ کی نعمتوں سے بھر دے۔مگر مہنگائی اللہ کی پناہ۔رمضان میں تو مہنگائی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔قوت خرید کی کمی سے کم مائیگی کااحساس جنم لیتا ہے ،یہی احساس اناؤں کو مجروح کرتا ہے اور پھر ہم لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں۔حالانکہ روزہ صرف بھوک پیاس کو سہارنا نہیں بلکہ دیگر چیزوں کی برداشت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔مڈل کلاس کا مسئلہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتا ہے اور ان کے لائف اسٹائل کو پھلانگنے کو کوشش کرتا ہے جبکہ اسے اپنے سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے والے نظر نہیں آتے کہ ان کی کیا حالت ہے۔ماںکہتی تھیں کہ اپنے سے اوپر مت دیکھو،بے سکون ہوجاؤگے،خود سے نیچے دیکھو گے تو راضی ہوجاؤگے۔یہاں مغرب کی مثال دینا مناسب نہیں کہ وہاں مذہبی تہواروں میں عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے۔لوگ پورے سال کی خریداری انہی تہواروں میں کرڈالتے ہیں ۔ہماری حکومتیں بے شک اتنی مالدار نہیں کہ مغربی ممالک کی طرح ایسٹر یا کرسمس کی طرز پر رمضان میںعوام کو اشیاء پر سبسڈی دے سکیں لیکن کم از کم حکومتیں ظالمانہ منافع خوری پر تو نظر رکھ سکتی ہیں، اس کام کے لیے ادارے موجود ہیںجو ماضی میں اپنا کام کرتے تھے لیکن اب ان اداروں کو قولنج سا ہوگیا ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ رمضان کے آتے ہی اچانک اشیاء کیوں مہنگی ہوجاتی ہیں۔دکانداروں کو بھی خدا کا خوف نہیں رہا ۔وہ رمضان کو کمائی کا ”سیزن ”کہتے ہیں۔یہ سیزن روزہ داروں کے خون سے کمائی کرنے کا سیزن ہے۔ہم مادہ پرستی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ خود روزہ رکھ کر بھی روزہ داروں پر ہمیں رحم نہیں آتا۔اللہ نے انسان کو شعور دیا ہے اور شعور کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو سمجھے ،اور وہ بھی اس تناظر میں کہ کسی کو بھی دائمی زندگی میسر نہیں ۔ جب انسان اپنی موت کو سمجھ لے کہ اس نے مرنا بھی ہے تو زندگی کی پرسپشن یکسر بدل جائے گی ۔ انسان دنیا ومافیھاکو ایک نئے تناظرمیں دیکھنے کا اہل ہوجائے گا۔مگرہم تو ایک عجیب وغریب قسم کی موقع پرستی کے عادی ہوگئے ہیں۔صارف کی مجبوری کو بھانپتے ہی اس کی جیب سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ رزق تو اللہ ہی نے ہمارا مقرر کررکھا ہے توپھرحرص اور لالچ کیوں۔ہم لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا ذمہ دار حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں لیکن خود ہم کیا کررہے ہیں وہ ہمیں یا تو جائز نظر آتا ہے یا پھر دیکھ نہیں سکتے ۔موقع پرستی کے جراثیم ہم میں کچھ زیادہ ہی سرایت کرچکے ہیں۔بارش ہوجائے تو رکشہ والا زیادہ کرایہ طلب کرے گاکیونکہ رکشہ ڈرائیور کو معلوم ہوتا ہے کہ سواری بارش سے بچنے کے لیے لامحالہ رکشہ پر سفر کرنے پر مجبور ہوگی۔پٹرول کے دام بڑھتے ہی پٹرول پمپ مالکان پمپ پر پٹرول کی سیل بند کردیںگے تاکہ اگلے روز اسی پٹرول کو مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟