پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل

پاکستان بحرانوں کے جس نہ ختم ہونے والے راستے پر چل نکلا ہے اس سفرکے ختم ہونے کا سردست کوئی امکان نہیں ۔اس کی بہت سی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک اپنے لئے کوئی میگناکارٹایعنی منشور ِاعظم مقرر نہ کرسکا ۔آئین ایک بالادست دستاویز کی صورت میں موجود ہے مگر برطانیہ جیسی پارلیمانی جمہوریتوں کی ماں کسی تحریری آئین کے بغیر بھی کامیابی کے ساتھ اپنی جمہوریت کو چلا رہا ہے۔یہاں ہم لکھی ہوئی دستاویز کے باوجود دوچار قدم چل کر لڑکھڑا جا تے ہیں۔عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر کی طرف سے دی گئی وہ رولنگ منسوخ کردی جس میں اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کیا گیا تھا ۔اس کے ساتھ اسمبلی توڑنے کے وزیر اعظم اور صدر کے فرامین کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ۔عدالت نے عملی طور پر شہباز شریف کو روسٹرم پر بلا کر مستقبل کے وزیر اعظم کی نشاندہی ہی نہیں کی بلکہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ ،عدم اعتماد کی تحریک سمیت ایجنڈے کا تعین بھی کر دیا ۔عدالت نے ان تمام شواہد کو کاغذ کے پرزے سے زیادہ اہمیت نہیں دی کہ جسے بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر نے قرار داد عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ دی تھی ۔یوں سیاق وسباق سے کٹنے کی صورت میں قانون و انصاف کے تقاضوں کے تحت عدالت کا یہی فیصلہ بنتا تھا جو سامنے آیا ۔سیاق وسباق میں جانے کی صورت میں ایک نیا پنڈورہ باکس کھلنا تھا جس کی بلائوں نے پھر ملکی حدود کے اندر ہی محدود نہیں رہنا تھا بلکہ دنیا کے کئی براعظموں تک پھیل جانا تھا ۔یوں بھی پاکستان کا پہلا سیاسی بحران ہے جسے مقامی کی بجائے ایک عالمی تناظر میں دیکھا گیا اور اس کے اثرات بھی عالمی ہیں ۔یہ مہنگائی سے زیادہ ایک عالمی طاقتوں کے درمیان کراس فائر بن کر رہ گیا ۔ایسا کراس فائر بہت سے ملکوں کی طرح جس کی زد میں پاکستان بھی آگیا تھا ۔روس ،چین ترکی ،ایران اس بحران پر کھل کر بولے اور امریکہ اس پر تردیدیں جاری کر تا ہے ۔روس اور چین دنیا کا متبادل بلاک ہیں تو امریکہ اس وقت دنیا کی سب مضبوط اور بالادست طاقت ہے ۔پاکستان کے کئی سیاسی بحرانوں کا پیمانہ ماضی میں بھی ملکی حدود سے باہر چھلک پڑتا رہا ہے مگر زیادہ سے زیادہ ایک آدھ ملک چھپ کر اور ایک آدھ ملک تھوڑا سا ظاہر ہو کر اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرکے بحرانوں کو کسی انجام تک پہنچاتا تھا ۔ماضی قریب کے سیاسی بحرانوں میں کبھی برطانیہ سرگرم ہو کر کسی شخص کو ریسکیو کرتا رہا ہے یا سعودی عرب بہت محتاط انداز میں بحران کے خاتمے میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ذوالفقارعلی بھٹو کی برطرفی اور پھانسی ایک ایسا بحران تھا جس میں ایک سے زیادہ ممالک کے درمیان رسہ کشی اُبھری تھی ۔کئی ممالک تو پاکستان سے مستقل ناراض ہو کر رہ گئے تھے ۔اس بحران میں امریکہ ”ولن ” تھا اور مسلمان ممالک ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔حالیہ بحران اپنی نوعیت کا واحد او ر پہلا بحران تھا جس نے پہلے سے منقسم دنیا کو مزید تقسیم کیا اور دنیا کے دوبلاکوں کے درمیان بیان بازی کی سی کیفیت پیدا ہوئی ۔روس نے تو بہت کھل کر بیان دیا مگر چینی میڈیا بھی اپنے روایتی محتاط انداز میں امریکہ کی رجیم چینج کی کوششوں کی یادیں تازہ کرتا رہا ۔چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے کارٹون اور مظاہروں کے ذریعے امریکہ کی رجیم چینج کی کہانی کو یادوں میں تازہ کرانے کی کوشش کی ۔ایک مضمون میں گلوبل ٹائمز نے پاکستان کے بحران کا یوں ذکر کیا۔”واشنگٹن دنیا بھر میں کلر ریولیوشن برپا کرنے کے لئے بدنام ہے۔عین ممکن ہے کہ پاکستان اور سری لنکا کے بحرانوں کے پیچھے امریکہ نہ ہو مگر امریکہ چین کے کچھ ہمسایہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے باز نہیں آئے گا”۔ واضح رہے عوامی مظاہروں کے ذریعے حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کی کوششوں کو ”کلر ریولیوشن ” کہا جاتا ہے۔یوں پاکستان کا رواں بحران محض داخلی محرکات کا حامل نہیں بلکہ اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے مضبوط بین الاقوامی پرت اور واضح جہت کا حامل بھی ہے۔عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد پاکستان کی رائے عامہ حسب روایت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ۔جس کی خواہشات کی تکمیل ہوئی اس کے نزدیک عدالت نے قانون اور آئین کو بچالیا اور آئین کی محافظ اور شارح کا کردار ادا کیا ۔ان کے خیال میں پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے ۔اب کوئی سول کا فوجی طالع آزما جمہوریت اور آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا جبکہ دوسری طر ف اس فیصلے سے متاثرہ فریق کھل کر مایوسی کا اظہار کر رہا ہے ۔غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو انداز ہ ہوگا کہ بظاہر تو قانون اور آئین کی فتح ہوئی حقیقت میں پاکستان کی کنٹرولڈ جمہوریت کے مزید کمزور ہونے کا عمل تیز ہوا۔پہلے صرف ایک طاقتور ادارہ پارلیمان کے معاملات میں خاموشی سے مداخلت کرتا تھا اب عدلیہ اعلانیہ حصہ دار بن گئی ۔یوں عدلیہ کے تاریخی فیصلے کا بوجھ پارلیمنٹ پر آن پڑا ۔حقیقت میں اس سے پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار مزید محدو د ہوگیا اور عدلیہ کی طرف سے پارلیمان کے معاملات میں بہت اندر تک مداخلت کی ایک مثال قائم ہوگئی ۔ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یہ بحران کے خاتمے کی بنیادپڑی ہے یا ایک نئے بحران کا سنگِ بنیاد سج گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  ووٹ کو عزت دو؟؟