ہر وقت اطمینان کی تلاش ہی کیوں؟

ہم میں کسی نے کبھی سوچا کہ ہم کتنا کچھ کماتے ہیں اور کتنا خرچ کرتے ہیں اس کے باوجود ہماری ضرورتیںپوری نہیں ہوتیں اور ہم میں سے ہر ایک اپنی خواہشات کے ادھوری رہنے پر کس قدر فکر مند اور تگ و دو میں ہے یہ ایک گھن چکر ہے جو کبھی بھی پورا نہیں ہو گا کیونکہ پیٹ بالاخر قبر کی مٹی سے بھرتا ہے اس دنیا میں ہم جتنے بھی جتن کریں نتیجے سے مطمئن ہونا ہماری سرشت میں ہے ہی نہیں اور نہ ہی کبھی اس تگ و د ومیں کبھی اطمینان کے لمحات آسکتے ہیںزندگی بھر کولہو کے بیل کی طرح سرگردان رہ کر بھی جب ہمارے جیبوں کا یہ حال ہے تو کیاکبھی سوچا ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے بے روزگار ہیں یا پھر چھوٹے موٹے کام و دھندہ کرکے اہل خاندان کا پیٹ پالتے ہیں ان پر کیا بیتتی ہوگی یہ محض ہمارا خیال ہے ورنہ ہم جیسوں تو کیا جو لوگ دولت کے انبار میں دبے ہوئے ہوتے ہیں ان میں اور محرومیوں کی شکایت کرنے والوں کے حالات میں زیادہ فرق نہیں یہ جو دولت کی ریل پیل چکا چوند اور نمود و نمائش ہمیں نظر آتا ہے یہ محض فریب اور نظروں کا دھوکہ ہے ا نسان ہر وقت بہلاوے کی تلاش میں رہتا ہے یہ اعلیٰ تعلیم و بڑی بڑی ڈگریاں مہارتیں اور جاہ و غرور سبھی تو دھوکہ ہیں جو انسان کے امتحان کے لئے قدرت نے رکھا ہے وگر نہ چار لقمہ خوراک تن ڈھاپنے کو پوشاک اور کچی چھت سبھی کو میسر ہے اور اگر کسی کو یہ بھی میسر نہیں تو اس کی بھی گزر بسر ہی ہو رہی ہوتی ہے کمخواب کے بستر پر کروٹیں بدلی جائیں یا سردی و گرمی کے مارے بے چین جسم تکلیف میں ہو بات تو فقط ایک ہی ہوا نا صرف کیفیت مختلف ہوتی ہے یہی کیفیت وہ دھو کہ یا قدرت کا امتحان جو قدرت کا ہی دین ہے ورنہ کیا مجال کہ کوئی تولاکھوں ‘ کروڑوں ‘ اربوں اور کھربوں میں کھیلے اور کوئی نان جویں کو ترسے ‘ انسان کے مقدر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے کئی مثالیں آپ سبھی کے سامنے ہوں گی اپنے اپنے تجربے ومشاہدے میں اپنے ہی ارد گرد نظر دوڑائیں صلاحیت ہو یا مہارت دولت کوئی بھی چیز وہ اپنے کسی کمال کی نہیں ہوتی یہ کمال عطاء کرنے والی ذات کی ہوتی ہے کہ وہ کس کے حصے میں کیا ڈال دیا ہے کب ایسا کیا ہے اور کب تک ایسا ہونا مقدر میں ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوئے تو فقیر و گدا اور جاگ گئے تو دنیا بدل چکی ہوتی ہے اور آنکھ لگی تھی توشہنشاہ وقت حاکم اور آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ کچھ بھی باقی نہیں بچا سب کچھ چھن گیا متاع دنیا کی یہی حقیقت ہوتی ہے متاع دل اور متاع آخرت بھی انعام و مہربانی ہی ہوتے ہیں جس میں برکت و مودت میں کمال کسی اور کی نظر کرم کا ہوتا ہے بندہ بشر کچھ نہیں جب حقیقت ہی ٹھہرا اور کوئی بھی چیز مستقل اور باقی رہنے والی نہیں تو پھر رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوں میں ہمیں اپنے آپ کو ٹٹول کے دیکھنا چاہئے کہ قدرت نے ہمیں مال و دولت علم ‘روزگار اور اولاد و خاندان صحت و منزلت کس کس چیز سے نواز رکھا ہے جس کا ہمیں احساس ہی نہیں ہم جیسے ناشکرے بندے ان کی مہربانیوں کا اعتراف تو درکنار اس پر توجہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں اگر ہم شکر گزار بندے بن جائیں تو یہ ان کا وعدہ ہے کہ میں اس میں اضافہ کروں گا ہم تواضافے کا مطلب کثرت مال و کثرت عنایات کو تعداد کے معنوں میں لیتے ہیں اور یہی ہماری آسودگی اور غیر مطمئن ہونے کی وجہ بھی ہے لیکن دیکھیں تو حلال مال تھوڑا ہوتا ہے کم ہی کثرت کی منزل آتی ہے اصل چیز جو ہم بھلا بیٹھنے کے باعث پریشان و سرگرداںہیں وہ کثرت نہیں بلکہ وہ راز وہ نسخہ وہ گر برکت ہے جس کا ہر کسی کو اعتراف ہے بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے برکت ہی دنیا سے اٹھ گئی ہے باقی دیکھیں کسی چیز کی کمی ہے یہاں تک کہ بندہ سیر ہو کر نعمت خداوندی سے پھر بھی مطمئن نہیں ہوتا کوئی ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنی تلاش میں لگائے رکھتا ہے جس کی ہم صبح و شام تلاش میں ہوتے ہیں بستر پر بھی کروٹیں لیتے ہوئے خیال ہوتا ہے کہ کچھ احساس کم مائیگی ہے لیکن ہم سمجھ نہیں پاتے کہ یہ جوانجانا سا احساس کھو جانے کی شکایت اطمینان کا نہ ہونا احساس سے عاری عوامل ایک تشنگی کا ہر وقت ذہن میں آنا شکم سیر ہو کر ہماری بھوک مرتی نہیں اور طلب در طلب کے چکر سے نکل نہیں پاتے مشکل یہ کہ ہم اپنی اس کیفیت کو محسوس تو کرتے ہیں مگر اس امر کا تعین نہیں کر پاتے کہ ہمیں چاہئے کیا دیکھو تو سب کچھ پاس ہے مگر اس کے باوجود ہم اپنی ہی زندگی اور حالات سے مطمئن نہیں ہوتے اب تو ہم اس بات کے پوری طرح قائل ہو گئے ہیںکہ ہماری یہ کیفیت رہتی ہے کم و بیش ہر کسی کا یہ یہی تو مسئلہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ سمجھائی نہیں دیتا سوچتے اور کوشش بھی کرتے ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں اس کی وجہ بڑی سادہ اور عام فہم ہے وہ ہے مادہ پرستی اور ہوس مال جس نے ہمارا سکون غارت کر رکھا ہے ہم ہر مسئلے کا حل روپے پیسے اور سہولیات میں ڈھونڈتے ہیں اس لئے بظاہر ہم راحت کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ہم خوش نہیں راحت کے اسباب و سامان تو ہیں لیکن دل کی کیفیت اضطراب ہی کی سی رہتی ہے ہم سوچتے ہی نہیں کہ دل کا اطمینان اس ذات باری تعالیٰ کی یاد میں رکھی گئی ہے جسے ہم نے یکسر بھلا دیا ہے اور ہم اس پر غور کرنے اور خود کو بدلنے یا کم ازکم تجربہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں جو ایسا کرتے ہیں جو یہ راز پا چکے ہیں اور اس پرعمل پیرا ہونے کی کوشش میں سرگردان رہتے ہیں ان کے تن پر تو پھٹے پرانے کپڑے ہوں گے جسم غبار آلوداور کسی شمار قطار میں بھی نہیں ہوں گے مگر ان کا ذہن ان کا دل ان کا جسم اور ان کی روح ایک عجیب سا اطمینان اور سرشاری محسوس کرتا ہوگا رمضان المبارک کی یہ ساعتیں خود کو تبدیل کرنے اور اپنی مشکلات اور ناآسودگی کے ان جذبات سے چھٹکارا پانے کا سنہری موقع فراہم کرتے ہیں کسی بے کس کا ہاتھ تھام لیں حب مال نے جب عمیق کھائی میں تجھے گرا رکھا ہے اس سے یہی مال خرچ کرکے نکلنے کا تجربہ کریں اس اندھے کنوئیں میں جس وجہ سے آپ گرے ہوئے ہیں اس کی سیڑھی بھی اسے ہی بنا لیجئے ۔ آپ کے ارد گرد بہت سے مستحق اور خود دار لوگ ہوں گے ذرا سی توجہ دیں تو نظر آئیں گے ان کی دستگیری کیجئے انفاق کا مظاہرہ کیجئے کائنات کی دولت کے مالک کو قرض دے کر دیکھئے وہ کیسے لوٹاتا ہے صرف حساب ہی بے باق نہ ہو گا بلکہ دائمی اطمینان بھی دے گا۔ ذرا سوچئے جس چیز کی ہمیں تلاش رہتی ہے اس کا حصول کتنا آسان اور پاس ہے مگر ہمیں ادراک نہیں۔

مزید پڑھیں:  پرت در پرت سٹریٹجک کھیل