نظریہ ضرورت کی سبق آموز تدفین

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ ‘ بلکہ اسے تاریخ کو درست سمت پر ڈالنے یا ڈالے جانے سے تعبیر کرنے میں کیا قباحت ہے ‘ الحمد للہ اسے ہم پاکستان کی جیت سے تشبیہ دیں گے ‘ نظریہ ضرورت جس نے ملکی سیاسی تاریخ کے ماتھے پر شرمندگی کے لاتعداد نشان ثبت کئے تھے ‘ آج اسے تاریخ ہی کے کوڑے دان میں ڈال کر عدلیہ نے اپنے اوپر اٹھنے والے سوالیہ نشان کو مثبت رخ دیدیا ہے ‘ اس حوالے سے بھی اگرچہ مختلف آراء ہیں اور جو لوگ تاریخ کے غلط سمت کھڑے تھے ان کی سوچ اب بھی تبدیل ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے ‘ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ آج سے لگ بھگ 75سال پہلے رمضان المبارک کے مہینے میں برصغیرکے مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے ایک آزاد وطن تحفے میں دیا تھا ‘ اسے اپنے قیام کے 25سال بعد نہ صرف ہم نے دو لخت ہوتے دیکھا( وجوہات تاریخ ہے ) مگر ہم نے اس سے سبق نہیں سیکھا اور بعض طبقوں نے اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھیں ‘اور اب بھی کچھ لوگ خود کو ماورائے آئین و قانون سمجھتے ہوئے کمزور طبقوں پر مسلط رہنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ‘ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور موقع عنایت کرتے ہوئے اس رمضان المبارک کے مہینے میں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا موقع دیتے ہوئے ‘نظریہ ضرورت کودفن کرنے کی توفیق دی ہے ۔ یعنی اس آئین کو ‘ جس کے ساتھ کئی بار طالع آزمائوں نے کھلواڑ کرتے ہوئے اس کی کھلم کھلا توہین کی اور ہماری عدلیہ نے ان کے ہاتھ پکڑنے کے بجائے الٹا پارلیمنٹ کا حق چھین کر آمروں کو آئین میں من پسند ترامیم کا حق بھی دیدیا ‘ حالانکہ عدلیہ اس بات کی خود مکلف نہیں تھی کہ آئین میں کوئی تبدیلی کر سکے جبکہ آمروں کو من پسند تبدیلیوں کی اجازت دے کر ”آئین شکنی” کی تاریخ رقم کی ‘ تاہم مبینہ طور پر مسلط کی جانے والی سرکار نے جب ریشہ دوانیوں کی حدود پار کرکے آئین کی دھجیاں اڑا کر ایک انتہائی خطرناک آئینی بحران پیدا کیا تو اسی عدلیہ نے (جس پر ماضی میں آمروں کا ساتھ دینے کے الزامات ہیں) پانچ رکنی بنچ کے ذریعے متفقہ طور پر اس بحران کا حل یوں نکالا کہ ماضی کے برعکس اس نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا جس نے پاکستان کو آج اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ عالمی سطح پر ہماری کوئی توقیر ہی باقی نہیں بچی ‘ اس بے توقیری کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ بقول شاعر
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یہ بہ ظاہر تو نظریہ ضرورت دفن ہو چکا ہے تاہم بعض حلقوں میں اب بھی اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عدالت نے خود نظریہ ضرورت دفن کر دیا ہے امید ہے کہ اب وہ پھر سے اسے زندہ نہیں کرے گی ‘ تاہم حیرت ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی کو بحال کرنے اور قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کی صبح طلب کرکے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا جو حکم دیا ہے اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا تازہ بیان نہ صرف حیرت ناک ہے بلکہ عدالتی فیصلے کی صریح نفی کرتادکھائی دیتا ہے انہوں نے کہا ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے آئین شکنی نہیں کی ‘ موجودہ صورتحال میں واحد حل فریش مینڈیٹ ہے ‘ جبکہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا ہے کہ آئین کو سرعام پامال کیا گیا ‘ ایک اور وزیر فواد چوہدری نے عدالتی فیصلے کو”بدقسمت فیصلہ” قرار دیتے ہوئے اسے سیاسی بحران میں اضافہ کا باعث قراردیا ہے ‘ ادھر صدر سپریم کورٹ احسن بھون نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے آج یعنی بروز جمعہ جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں ‘ وکلاء کی جانب سے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا اور کہا کہ نظریہ ضرورت دفن ہو گیا ہے’ جشن منانے کا اہتمام تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی کیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق نہ صرف مٹھائیاں تقسیم کیں ‘ بھنگڑے ڈالے ‘ سو اور پانچ سو والے نوٹ بھی نچاور کئے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک ا نصاف کے بیانئے کی نفی اپنے ہی ممبران اسمبلی نے کرکے تحریک کی قیادت کو آئینہ دکھا دیا ہے یعنی شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو ”اپنے حال پہ” کتنا غرور تھا
خدا لگتی کہئے تو تحریک انصاف کی قیادت کو اس کے ”سیاسی مشیروں” نے جو غلط مشورے دیئے ان کا خمیازہ آج وہ بھگت رہی ہے ‘ ان مشیروں کا نام لینے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ ”پیک ہے ‘ سب جانتی ہے” اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ خبریں اور تبصرے گردش کرتے رہے ہیں کہ یہ بھی”پرتول رہے ہیں” مگر جن جماعتوں سے مبینہ طور پر یہ روابط استوار کرکے اڑان بھرنے کی کوشش کر رہے تھے ‘ وہاں سے کورا جواب ملنے کے بعد بہ امر مجبوری یہ اب تک تحریک انصاف کے ساتھ جڑے ہوئے وزارتیں انجوائے کر رہے ہیں ‘ جبکہ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ان کی پرواز کس رخ ہو گی ابھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اپنے غلط مشوروں سے ان لوگوں نے تحریک انصاف کا جو حشر کر دیا ہے وہ عبرتناک بھی ہے اور دیدنی بھی ‘ ہر چند کہ اس حال تک پہنچنے میں خود تحریک انصاف کی قیادت کی انانیت و نرگسیت کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ‘ اور جس رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا پوزیشن رہنمائوں کے ساتھ ہاتھ تک نہ ملانے ‘ آئینی تقاضوں کے مطابق قومی معاملات پر ایک ساتھ بیٹھ کر باہم صلاح مشورے سے ان کو حل کرنے سے صریح انکار کرکے صرف اور صرف ان پر ملکی دولت لوٹنے ‘ انہیں بدعنوان قرار دینے یہاں تک کہ آخر میں ان کو غدار قرار دینے کی جو کوششیں کی گئیں اب یہ سارا کچھ الٹا گلے پڑ رہا ہے ۔ مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ محمد آصف نے ایک بیان میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا حب الوطنی پر صرف آپ کا حق ہے ‘ پاکستان کے عوام کے شعور کی توہین نہ کریں ‘ بہرحال دیکھتے ہیں کہ جب عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق آج ہفتہ9اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے تو تحریک انصاف کیا رویہ اختیار کرتی ہے کیونکہ گزشتہ روز عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر تحریک کی جانب سے کوئی نیا سرپرائز لائے جانے کی پوسٹیں وائرل ہو رہی تھیں ‘ اگرچہ عقل و فہم کا تقاضا ہے کہ اعتزاز احسن بہتر ہو گا کہ عمران خان اپوزیشن میں بیٹھیں۔
دیکھ اے دل نہ کہیں بات یہ”اس” تک پہنچے
چشم نمناک نے طوفان اٹھا رکھا ہے

مزید پڑھیں:  جنگلات کی بیخ کنی؟