ڈرو اُس وقت سے

یہ جولائی 1988کی بات ہے اُ س وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کر رکھا تھا اس دوران اسلام آباد میں ایک صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ یہ انتخابات غیر جماعتی طور پر ہی ہونگے نا تو ضیا ء الحق نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جی باالکل بلکہ اگر میرا بس چلے تو آئندہ دس انتخابات بھی غیر جماعتی طور پر کرادوں۔اِس بات کے ٹھیک ایک ماہ بعد 17اگست کو جنرل ضیاء الحق بہاولپور کے قریب طیارے کے حادثے میں اپنے ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔مین آج بھی سوچتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو اُس صحافی سے کی گئی جنرل ضیاء الحق کی بات پسند نہ آئی اور اُ س نے آئندہ دس انتخابات کو غیر آئینی طور پر کرانے کا پروگرام رکھنے والے جنرل ضیاء الحق کو چند دن بعد ہی نشانِ عبرت بنا دیا لیکن اسکے باوجود انکے بعد آنے والے کسی بھی حکمران نے سبق سیکھنا تو درکنار بلکہ ایسی ایسی آئین شکنیاں کیں کہ خود ضیاء الحق کی تاریخ بھی شرما گئی ،مثلاً 3ُاپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو کچھ ہوا اس نے نہ صرف ہٹلر کے نازی ازم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے بلکہ عمران خان کے اصول پسندی کے تمام دعوے بھی ہوا میں اڑ ا دیئے ۔وہ عمران خان جو بات بات پر مغرب کی مثالیں دے کر قوم کو انکی اصول پسندی کے درس دیا کرتا تھا وہ عمران خان جو بات بات پر خلفائے راشدین کے قصے سنا کر قوم کو امیر غریب کے امتیاز کے خاتمے کی مثال دیا کرتا تھا، مگر اس کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو پہلے تو اس نے اسکا خیرمقدم کیا اور کہا کہ میں تو کب سے اِس تحریک کا انتظار کر رہا تھا اب میں مخالفین کو انکے سامنے شکستِ فاش دوں گا مگر بعد میں پینترا بدلتے ہوئے اسے غیر ملکی سازش قرار دے دیا وہ عمران خان جو اپنی غیرت مندی کے دعوے کیا کرتا تھا کہ میں اقتدار کیلئے کبھی کسی سے بلیک میل نہیں ہونگا اور کسی کے منت ترلے نہیں کروں گا مگر اپنے خلاف عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وہ جس طرح پانچ پانچ نشستیں رکھنے والی جماعتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا رہا اور انکے مطالبات مانتا رہااور ان سے اپنی مدد کی بھیک مانگتا رہا اس نے اسکے تمام دعوؤں کو خاک میں ملا دیا۔وہ عمران جس نے سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن کے وقت اپوزیشن کی طرف سے اسکو ووٹ دینے والوں کو ضمیر کی آواز کہااور اسے عین قانون کہا مگر اب اپنے خلاف اپنی جماعت کے منحرفین کو بے ضمیر کا لقب دے دیا اور انکے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کر دیا وہ عمران خان جو انصاف اور قانون کے دعوے کرتے تھکتا نہیں تھا جب اسکے خلاف عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس نے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا پہلے او آئی سی کا بہانہ کر کے اسکی تایخ آگے کرائی پھر 3اپریل کی تاریخ دلوائی مگر اسکے باوجود جب تمام اتحادی اسکا ساتھ چھوڑ گئے اور منحرفین بھی تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود واپس نہ آئے تو 3اپریل کو قانون شکنی کی تمام حدیں ہی پار کر دیں۔ذرا سوچئے کہ ایک ڈپٹی اسپیکر جس کے پاس تحریک عدم اعتماد کو کالعدم کرنے کا اختیار ہی نہیں اور اس نے غیر ملکی سازش کا خودساختہ الزام جسکے بارے میں ابھی تک قوم کو ثبوت ہی نہیں دیا گیا اسکے تحت تحریک عدم اعتماد کو کالعدم قرار دے کر اجلاس برخواست کر دیا اور حیرانگی کی بات ہے کہ وہ وزیراعظم جس کے خلاف تحریک عدم اعتماد آچکی ہو اور اکثریت بھی ثابت ہو چکی ہووہ آئین کے تحت کسی صورت بھی صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ نہیں دے سکتا مگر خان صاحب نے آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یہ کام بھی کر ڈالا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی قومی اسمبلی کا ایکشن ری پلے ہو رہا ہے اور وہاں بھی یہی غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں ۔اکثریت رکھنے کے باوجود اپوزیشن کو وزیراعلیٰ منتخب کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ۔
اب سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کر دی گئی ہیں اور اس دوران کیے جانے والے تمام اقدامات و فیصلوں کو کالعدم قرار د ے کر ، ہفتہ 9اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلوا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا کہا گیا ہے۔
جب اس طرح کا کھلواڑ ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ ہو گا تو پھر قدرت کا قانون بھی ایک دن ضرور حرکت میں آئے گا جو ایسے حکمرانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔اس لئے ڈرو اس وقت سے ۔

مزید پڑھیں:  آپریشن نہیں۔ سیاسی حل